ہزار مرتبہ دیکھا ستم جدائی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزار مرتبہ دیکھا ستم جدائی کا
by کرامت علی شہیدی

ہزار مرتبہ دیکھا ستم جدائی کا
ہنوز حوصلہ باقی ہے آشنائی کا

پری اٹھی مرے پہلو سے بارہا ناکام
فریفتہ ہوں تری طرز دل ربائی کا

مجھے عذاب جہنم کہ بت پرست ہوں میں
وہ بت بہشت میں دعویٰ جسے خدائی کا

فضائے باغ سے ہے گوشۂ قفس خوش تر
گر اپنے دل میں نہ ہو دغدغہ رہائی کا

ادب نہ وادئ وحشت کے مجھ سے ترک ہوئے
جنوں میں ہوش رہا ہے برہنہ پائی کا

نگاہ خندہ تغافل عتاب کہنہ ہوئے
نکال طرز نیا کوئی دل ربائی کا

بتوں کا سجدہ مری سر نوشت میں کب تھا
کہ عزم کعبہ کے در پر ہو جبہ سائی کا

اچک رہا ہے کھڑا بام عرش پر کم بخت
قلق ہے مجھ کو شہیدیؔ کی نارسائی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse