ہزار حیف چھٹا ساتھ ہم نشینوں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزار حیف چھٹا ساتھ ہم نشینوں کا
by شاد عظیم آبادی

ہزار حیف چھٹا ساتھ ہم نشینوں کا
مکاں تو ہے پہ ٹھکانا نہیں مکینوں کا

کھلا جو باغ میں غنچہ ستارہ دار کھلا
گلوں نے نقش اتارا ہے مہ جبینوں کا

ہے اپنی اپنی طبیعت پہ حسن شے موقوف
میں کیوں ہوں بندۂ بے دام ان حسینوں کا

نظر کا کیا ہے بھروسہ نظر پہ ہیں پردے
خیال عرش پہ جاتا ہے دوربینوں کا

زمین شور ہو یا ہو زمین شعر اے دل
نہیں ہے کوئی خریدار ان زمینوں کا

بہشت دہر ہے اپنا وطن خدا کی قسم
جدا جدا ہے ترانہ سبھی مہینوں کا

کسی کو مان لیا دل نے جب تو مان لیا
نہ دخل دو یہی مسلک ہے خوش یقینوں کا

جو ہو مصور فطرت مثال کیا اس کی
گماں نہ چاہیے انساں پہ آبگینوں کا

ذرا نکل کے تو دنیا سے دیکھ اے انساں
پتا نہ دن کا نہ انداز ہے مہینوں کا

سکھا دیا مجھے بچ بچ کے راستہ چلنا
خدا بھلا کرے اے شادؔ نکتہ چینوں کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse