ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں
by آغا اکبرآبادی

ہزار جان سے صاحب نثار ہم بھی ہیں
تمہاری تیر نگہ کے شکار ہم بھی ہیں

ازل سے داخل فرد شمار ہم بھی ہیں
تمہارے چاہنے والوں میں یار ہم بھی ہیں

ہمیشہ ہم سے کدورت رہی حسینوں کو
نہ دل سے نکلے کبھی وہ غبار ہم بھی ہیں

مسافروں کی تواضع سے نام ہوتا ہے
کرم کرو کہ غریب الدیار ہم بھی ہیں

شراب پیتے ہیں تو جاگتے ہیں ساری رات
مدام عابد شب زندہ دار ہم بھی ہیں

ہزار بار حسینوں سے ہم نے نوک کی لی
گلوں کی آنکھ میں کھٹکے وہ خار ہم بھی ہیں

عجیب رتبہ عنایت کیا ہے قنبر کو
غلام یا شہ دلدل سوار ہم بھی ہیں

جنوں کے ہاتھ سے ہے ان دنوں گریباں تنگ
قبا پکارتی ہے تار تار ہم بھی ہیں

بڑے ہی چالیے ہیں چال چلتے ہیں ہر دم
وہ چوکتے نہیں پر ہوشیار ہم بھی ہیں

رقیب کو بھی ہے بار ان کی بزم میں آغاؔ
شریک صحبت بوس و کنار ہم بھی ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse