ہزاروں کی جان لے چکا ہے یہ چہرہ زیر نقاب ہو کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزاروں کی جان لے چکا ہے یہ چہرہ زیر نقاب ہو کر
by آسی غازی پوری

ہزاروں کی جان لے چکا ہے یہ چہرہ زیر نقاب ہو کر
مگر قیامت کرو گے برپا جو نکلو گے بے حجاب ہو کر

شناخت اوس کی ہو سہل کیوں کر کہ جب نہ تب بھیس اک نیا ہو
وہ دن کو خورشید ہو کے نکلے تو رات کو ماہتاب ہو کر

میں دل سے اس شیخ کا ہوں قائل کہ میکدے میں پڑھے تہجد
لگائے مسجد میں نعرے ہو حق کے محو دور شراب ہو کر

فراق میں اس قدر تردد ابھی تمہیں کچھ خبر نہیں ہے
بڑھے گی کچھ اور بے قراری وصال میں کامیاب ہو کر

نہ کر تو اتنی مذمت اس کی بہشت کی چیز ہے یہ واعظ
یہ بلکہ ہے جوش بحر رحمت اگرچہ آیا شراب ہو کر

وہ تھا بدن یا کوئی گل تر پھر اوس کی خوشبو وہ روح پرور
جدھر سے گزرے بسا وہ رستہ بہا پسینہ گلاب ہو کر

جناب ناسخؔ کی یہ ہدایت ہے یاد رکھنا تم اس کو آصیؔ
غزل میں ایسے ہوں شعر جن میں کمی نہ ہو انتخاب ہو کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse