ہزاروں طرح اپنا درد ہم اس کو سناتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزاروں طرح اپنا درد ہم اس کو سناتے ہیں
by آسی الدنی

ہزاروں طرح اپنا درد ہم اس کو سناتے ہیں
مگر تصویر کو ہر حال میں تصویر پاتے ہیں

بجھا دے اے ہوائے تند مدفن کے چراغوں کو
سیہ بختی میں یہ اک بد نما دھبہ لگاتے ہیں

مرتب کر گیا اک عشق کا قانون دنیا میں
وہ دیوانے ہیں جو مجنوں کو دیوانہ بتاتے ہیں

اسی محفل سے میں روتا ہوا آیا ہوں اے آسیؔ
اشارے میں جہاں لاکھوں مقدر بدلے جاتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse