ہزاروں آرزوئیں ساتھ ہیں اس پر اکیلی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہزاروں آرزوئیں ساتھ ہیں اس پر اکیلی ہے
by شاد عظیم آبادی

ہزاروں آرزوئیں ساتھ ہیں اس پر اکیلی ہے
ہماری روح بے بوجھی ہوئی اب تک پہیلی ہے

بڑھاپا ہو تو ہو اس ربط میں کیوں کر خلل آئے
مری یاس و تمنا بچپنے سے ساتھ کھیلی ہے

اجل بھی ٹل گئی دیکھی گئی حالت نہ آنکھوں سے
شب غم میں مصیبت سی مصیبت ہم نے جھیلی ہے

عدم کا تھا سفر جب اور کچھ توشہ نہ ہاتھ آیا
بہت سی آرزو چلتے چلاتے ساتھ لے لی ہے

ذرا دیکھو تو ان اترے ہوئے چہروں کو پھولوں کے
معاذ اللہ جھونکا ہے خزاں کا یا کہ سیلی ہے

کبھی جمنے نہ دیتی بے خودی خاطر پہ نقش ان کا
بہ مشکل میں نے یہ تصویر اسی عیار سے لی ہے

ہماری اور گلوں کی ایک ہے نشوونما لیکن
وہاں مٹھی میں زر ہے اور یہاں خالی ہتھیلی ہے

نہ پوچھو شادؔ ویرانی کو دل کی کیا بتاؤں میں
تمنا جا چکی حسرت غریب اس میں اکیلی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse