ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
by جوشش عظیم آبادی

ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے
پر نکلے ہے بے رنگی اس پار کی آنکھوں سے

شدت سے لگا ہنسنے احوال پہ گر میرے
آنسو بھی کبھی ٹپکے مکار کی آنکھوں سے

بے طاقتیٔ دل کا کیا شرح و بیاں کیجئے
بیماری نمایاں ہے بیمار کی آنکھوں سے

ہے تیغ نگہ کھینچے شمشیر بکف مژگاں
اب جیتے نہیں بچتے خوں خار کی آنکھوں سے

لاکھوں ہی کی آنکھوں سے آنکھوں تری بہتر ہیں
کیا اچھی ہیں اے پیاسے وہ چار کی آنکھوں سے

مت اہل دلوں سے کر ہم چشمی اے آئینے
غافل نہ ملا آنکھیں بیدار کی آنکھوں سے

ہر طرح سے دیکھا وہ دیکھ ہی لیتا ہے
تیاری کرے کیا کوئی عیار کی آنکھوں سے

اتنی بھی رسائی ہو ؔجوشش تو غنیمت ہے
خاک کف پا ملئے دل دار کی آنکھوں سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse