Jump to content

ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیے

From Wikisource
ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیے
by اکبر الہ آبادی
295401ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیےاکبر الہ آبادی

ہر قدم کہتا ہے تو آیا ہے جانے کے لیے
منزل ہستی نہیں ہے دل لگانے کے لیے

کیا مجھے خوش آئے یہ حیرت سرائے بے ثبات
ہوش اڑنے کے لیے ہے جان جانے کے لیے

دل نے دیکھا ہے بساط قوت ادراک کو
کیا بڑھے اس بزم میں آنکھیں اٹھانے کے لیے

خوب امیدیں بندھیں لیکن ہوئیں حرماں نصیب
بدلیاں اٹھیں مگر بجلی گرانے کے لیے

سانس کی ترکیب پر مٹی کو پیار آ ہی گیا
خود ہوئی قید اس کو سینے سے لگانے کے لیے

جب کہا میں نے بھلا دو غیر کو ہنس کر کہا
یاد پھر مجھ کو دلانا بھول جانے کے لیے

دیدہ بازی وہ کہاں آنکھیں رہا کرتی ہیں بند
جان ہی باقی نہیں اب دل لگانے کے لیے

مجھ کو خوش آئی ہے مستی شیخ جی کو فربہی
میں ہوں پینے کے لیے اور وہ ہیں کھانے کے لیے

اللہ اللہ کے سوا آخر رہا کچھ بھی نہ یاد
جو کیا تھا یاد سب تھا بھول جانے کے لیے

سر کہاں کے ساز کیسا کیسی بزم سامعین
جوش دل کافی ہے اکبرؔ تان اڑانے کے لیے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.