ہر طرف مجمع عاشقاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر طرف مجمع عاشقاں ہے
by امداد علی بحر

ہر طرف مجمع عاشقاں ہے
تیرے دم کا یہ سارا سماں ہے

اتنا مغرور کیوں باغباں ہے
یہ چمن چار دن میں خزاں ہے

عشق میں بے خبر ہو گیا ہوں
کس سے پوچھوں مرا دل کہاں ہے

کچھ نہیں سوجھتی سیر گلشن
میری آنکھوں سے وہ گل نہاں ہے

دھیان آٹھوں پہر ہے اسی کا
میں یہاں ہوں مرا دل وہاں ہے

سینے پر رکھ کے سوتا ہوں اس کو
اس کی تصویر آرام جاں ہے

آنسو بہنے لگے دیکھتے ہی
زلف محبوب ہے یا دھواں ہے

جان پروانہ ہے اس پری پر
شمع سوزاں ہر اک استخواں ہے

بے مروت ہے وہ بے وفا ہے
ساری محنت مری رائیگاں ہے

کیا تڑپتے گزرتے ہی اپنے
درد دل میں ہے لب پر فغاں ہے

ہجر میں کیوں نہیں موت آتی
ہائے کیا داغ دل مرض جاں ہے

ڈھونڈھتا ہوں میں یوسف کو اپنے
خاک میرے پس کارواں ہے

جام مل ہاتھ میں وہ بغل میں
بحرؔ اپنی یہ قسمت کہاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse