ہر شب خیال غیر کے مارے الگ تھلگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر شب خیال غیر کے مارے الگ تھلگ
by شاد لکھنوی

ہر شب خیال غیر کے مارے الگ تھلگ
آتے ہیں خواب میں وہ ہمارے الگ تھلگ

گر غیر ساتھ سایہ کے صورت نہ تھا تو کیوں
مثل صبا چمن سے سدھارے الگ تھلگ

بلبل وہ ہوں کہ فصل کے پہلے ہی باغباں
لیتا ہے باغ جس کا اجارے الگ تھلگ

دام بلا میں پھنستے ہیں آپ آ کے سیکڑوں
وہ بت ہزار بال سنوارے الگ تھلگ

اے گل تجھے کسی کی نہ مطلق خبر ہوئی
غنچے چٹک چٹک کے پکارے الگ تھلگ

خلوت میں بھی جو آئے ہیں جلوت کا ذکر کیا
بیٹھے ہوئے ہیں شرم کے مارے الگ تھلگ

پیش نظر شبیہ خیالی ہے اپنی شادؔ
نقشے جمے ہوئے ہیں ہمارے الگ تھلگ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse