ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
by مرزا محمد رفیع سودا

ہر سنگ میں شرار ہے تیرے ظہور کا
موسیٰ نہیں کہ سیر کروں کوہ طور کا

پڑھیے درود حسن صبیح و ملیح پر
جلوہ ہر ایک پر ہے محمد کے نور کا

توڑوں یہ آئنہ کہ ہم آغوش عکس ہے
ہووے نہ مج کو پاس جو تیرے حضور کا

بیکس کوئی مرے تو جلے اس پہ دل مرا
گویا ہے یہ چراغ غریباں کی گور کا

ہم تو قفس میں آن کے خاموش ہو رہے
اے ہم صفیر فائدہ ناحق کے شور کا

ساقی سے کہہ کہ ہے شب مہتاب جلوہ گر
دے بسمہ پوش ہو کے تو ساغر بلور کا

سوداؔ کبھی نہ مانیو واعظ کی گفتگو
آوازۂ دہل ہے خوش آیند دور کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse