ہر حرف آرزو پہ کرے تھا وہ یار بحث

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر حرف آرزو پہ کرے تھا وہ یار بحث
by ممنونؔ نظام الدین

ہر حرف آرزو پہ کرے تھا وہ یار بحث
ایک ایک بات پر تھی اسے شب ہزار بحث

لائے ہے کھینچ آرزوئے زخم دور سے
کہو وار پر نہ قاتل خنجر گزار بحث

حیرت زدوں کو محفل تصویر کی طرح
نے ہے شعار رمز و کنایہ نہ کار بحث

یا ذکر دوست یا ہے زباں پر حدیث عشق
جوں اہل مدرسہ نہیں اپنا شعار بحث

تکرار سے دل اپنا جو مانگا کہا کہ چل
ملتا ہے کوئی یہ نہ عبث بار بار بحث

کیجے اگر گلہ تو طرف دار یار ہو
آپ ہی لگائے مجھ سے دل بے قرار بحث

ممنوںؔ مجھے نصیحت صائبؔ یہ یاد ہے
تا صلح ممکن است مکن زینہار بحث

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse