ہر ایک کا حامی وہ مصیبت میں ہوا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر ایک کا حامی وہ مصیبت میں ہوا ہے
by عنایت اللہ روشن بدایونی

ہر ایک کا حامی وہ مصیبت میں ہوا ہے
جس کا کوئی دنیا میں نہیں اس کا خدا ہے

خاموش ہوں میں دیکھ کے رفتار زمانہ
حیرت صفت دیدۂ نقش کف پا ہے

اچھے ہو تو اچھے ہو برے ہو تو برے ہو
سنتے ہو جو آواز وہ گنبد کی صدا ہے

اک عمر ہوئی دیکھتے نیرنگ زمانہ
وہ اختر قسمت ہوں جو گردش میں رہا ہے

کیوں خون جگر کھائیے تکمیل ہنر میں
ہر ناقص فن آج امیر الشعرا ہے

اچھا نہیں ہوتا کبھی بیمار محبت
الفت وہ مرض ہے کہ اجل جس کی دوا ہے

بہتر ہے کہ باز آ ستم ایجاد و جفا سے
اے چرخ برے کام کا انجام برا ہے

آساں نہیں اے جان سفر ملک عدم کا
سنتا ہوں کہ دشوار بہت راہ فنا ہے

روشن ہے جہاں نور سے اس پردہ نشیں کے
خورشید میں ذرہ رخ روشن کی ضیا ہے

ارباب کرم پھولتے پھلتے ہیں ہمیشہ
سرسبز نہال کرم اہل سخا ہے

ناقص کے موافق ہے خلاف اہل ہنر کے
بدلی ہوئی روشنؔ یہ زمانہ کی ہوا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse