ہر ایک سر زمین اور اس کے موسموں کی بہار انشا پردازی پر کیا اثر کرتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر ایک سر زمین اور اس کے موسموں کی بہار انشا پردازی پر کیا اثر کرتی ہے
by محمد حسین آزاد

عزیزان وطن! میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہر ایک انشا پردازی اپنے ملک کی سر زمین، آب و ہوا اور پیداواری بلکہ اس کے جغرافیہ کو آئینہ کی طرح دکھاتی ہے۔ کیونکہ جو چیزیں انشا پر داز کو اس کے آس پاس نظر آتی ہیں، انہی کو وہ ادائے مطلب کے سامان میں خرچ کرتا ہے۔

ایک خوش رنگ خیال ہے۔ ذرا غور کر کے دیکھو۔ ہر ملک میں جو رنگ رنگ کی اشیا، مختلف اجناس اور مخلوقات ہیں، وہ حقیقت میں مختلف کیفیتیں ہیں کہ اس سر زمین کی طبیعت یا مزاج نے باہر نکالی ہیں۔ اسی طرح ہر ملک کی زبان ایک سر زمین ہے کہ بیان کو وہیں کے اجناس و اشیا کے استعاروں میں جلوہ دیتی ہے۔ دیکھو جس طرح کسی سر زمین کی طبیعت مجبور ہے کہ قدرتی پیداواروں کو باہر نکالے بغیر نہیں رہ سکتی اسی طرح اس کی زبان کی طبیعت مجبور ہے کہ وہیں کے تشبیہ و استعاروں میں مطلب کو رنگ دیتی ہے۔ ہر سر زمین اپنی تاثیر میں مجبور ہے، اس کی زبان اپنی خاصیت میں مجبور ہے۔

اس خیال کو میری تقریر نے پیچیدہ کر دیا۔ اچھا اب یوں سمجھو کہ کسی ملک کا انشا پرداز جب کوئی مطلب بیان کرنے لگتا ہے تو وہاں کے اشیا و اجناس وغیرہ جو آس پاس، ادھر ادھر سامنے ہیں وہ ہجوم کر کے اس کے دل و زبان پر امنڈ کر آتے ہیں اور مجبور کرتے ہیں کہ جو کہنا ہے ہمارے استعاروں اور ہماری ہی تشبیہوں میں ادا کرو۔ چنانچہ اسے مجال نہیں ہوتی بجز اس کے کہ انہی کو اپنے ادائے مطلب کا سامان بنائے۔ جب بیان میں صفائی کے ساتھ لطف آئے۔ لطیفہ، تین شخص ہم سفر تھے۔ سنار، پنیر والا، نان بائی، شام کو ایک جگہ جنگل میں اترے۔ بستر ایسے مقام پر ہوئے کہ سامنے کوسوں تک کھلا میدان تھا۔ منہ ہاتھ دھوئے۔ کھانے کھائے۔ جب کچھ رات گئی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی۔ دل شگفتہ ہوئے۔ 13-14 تاریخ تھی۔ چاند نے سامنے سے سر نکالا۔ سنار نے کہا آہا کندن ڈلک ڈلک کرتا ہے۔ ابھی کٹھالی سے نکالا ہے۔ پنیر والا بولا ثابت چکتی ہے۔ ابھی چاکو تک نہیں چھوایا۔ نان بائی نے کہا یہ تو میرے تنور سے پھڑ پھڑاتی روٹی نکلی ہے۔ دیکھو جو شخص جس جس حال میں تھا ویسے ہی خیال اس کے دل میں پیدا ہوئے۔ گر خیالت گلشن است تو گلشنیور خیالت گلخن است تو گلخنیہر ایک ملک کی سرزمین میں اکثر پیداواریں ایسی بھی ہوتی ہے جن سے دوسرا ملک محروم ہے۔ اسی واسطے ہر ایک زبان میں ادائے خیالات کے انداز جدا جدا ہوتے ہیں۔ بلکہ اشیا مذکورہ صاحب زبان کو مجبور کرتی ہیں اور اپنے ہی خیالات زبان پر لاتی ہیں۔ اکثر چیزیں دو ملکوں میں مشترک ہیں، اس لئے اکثر خیالات بھی مشترک ہیں۔ بعض ایسے خیالات ہیں کہ غیر ملکوں سے آئے ہیں مگر اپنی خوبی یا دوسری قوم کے شدت ارتباط سے زبان میں داخل ہو گئے ہیں۔ بہر حال مناسب ہے کہ آج فارس کی ملکی حالت بیان کروں اور دکھادوں کہ یہ خیالات، یہ ترکیبیں یا اصطلاحیں یا محاورے جو اس کی انشاپردازی میں ہیں کیونکر اپنے قدرتی زور سے انشا پرداز کی زبان پر آئے ہیں۔ اور ان کی نزاکت، لطافت اور رنگینی جو اور زبانوں میں سفید و سیاہ کا امتیاز رکھتی ہے۔ یہ حقیقت میں اصل سر زمین کی حالت اور اس کی لطافت اور نفاست کا نقشہ کھینچتی ہے۔ عرب کا ملک ریگستان اور کوہستان ہے۔ پتھریلی، خاکی، مخلوط، ہموار، نا ہموار، سہل، دشوار گزار، بادرخت، بے درخت وغیرہ وغیرہ اقسام کی زمینیں تھیں، جن میں رات دن رہنا سہنا، خانہ بدوش پھرنا ان کا کام تھا۔ اس واسطے ہر ایک کے لئے جدا جدا لفظ تھے۔ درخت تھے تو اسل، طلح، کھجور کے اور اکثر سوکھی روکھی قسم کے درخت نظر آتے تھے۔ اونٹ، شتر مرغ، جنگلی گائیں، پہاڑی بکرے، ہرنیاں، بکریاں، بھیڑیں وغیرہ جانور آنکھوں کے سامنے پھرتے تھے۔ چنانچہ اونٹوں اور کھجوروں کے متعلق بہتیرے لفظ ہیں۔ بادشاہت اور امارت کی شان و شکوہ سے وہ ملک محروم تھا۔ بس عیش و عشرت اور تکلف کے سامان بھی اسی حیثیت بموجب سمجھ لو۔ لوگ بیاباں گرد اور صحرا نشین تھے۔ لطافت اور نزاکت کے تکلفات کا وہاں کچھ کام نہ تھا۔ پھر بھی طبیعت میں قدرتی فصاحت کا جوش تھا۔ جن چیزوں کی وہاں بہتات تھی اور ہر وقت آنکھوں کے سامنے نظر آتی تھیں انہیں کی تشبیہوں اور استعاروں میں بے تکلف طور سے اپنے مطالب ادا کرتے تھے۔ اور فصاحت کے زور او ر کلام کے سحر کا پورا اثر دلوں پر پہنچاتے تھے۔ فصیح عرب معشوق کی تعریف کرتا ہے تو آنکھ کو، ہرن یا گاووشتی کی آنکھ کہتا ہے۔ زلف کو کولا یعنی زغال کہتا ہے اور جب بالوں کی رنگ و بو کو زیادہ چمکاتا ہے تو لونگیں بھی پیس کر ڈالتا ہے مگر مشک و عنبر کی خوشبو سے بھی غافل نہیں ہے۔ ہونٹوں کا سیاہی مائل ہونا قابل تعریف سمجھتا ہے۔ ملک گرم ہے رنگ کالے ہیں۔ دانتوں کو کبھی اولا کبھی گل بابونہ کہتا ہے۔ انہیں چمکاتا ہے مگر مسوڑوں پر سرمہ چھڑک کر سیاہ کرتا ہے۔ گردن کو بت کی گردن سے تشبیہ دیتے تھے۔ پیغمبر صاحب کے حلیہ میں لکھتے ہیں جیدہ کجید میۃ۔ ہند کا انشاپرداز زلف کی تشبیہ میں بھونرے اڑاتا ہے اور سانپ کے پھن بھی لہراتا ہے۔ مگر پہلی تشبیہ خاص ہندوستان کی ہے اور ملک کے لوگوں کو خبر ہی نہیں وہ کیونکر کہتے اور کہتے تو سننے والے کیا مزا لیتے۔ آنکھ کے لئے کنول کے پھول دکھاتا ہے۔ ممولے کی اچپلاہٹ دکھاتا ہے کہ ہندوستان کے لئے خاص ہیں۔ جی چاہتا ہے تو ہرن سے بھی آنکھ لڑا لیتا ہے۔ دانت موتی کی لڑیاں ہیں۔ یہ تشبیہ مشترک ہے۔ ناک کو طوطے کی چونچ سے تشبیہ دیتا ہے کہ خاص ہند کا جانور ہے۔ رفتار میں کبھی ہنس، کبھی ہتنی کی چال دکھاتا ہے۔ یہ بھی خاص ہند کا حسن ہے۔ بدن کی نرمی اور صفائی کو کیلے کے گابھے اور نیلوفر کے پھول سے تشبیہ دیتا ہے۔ یہ بھی یہیں کی لطافت ہے۔ رنگ سانولا ہو تو سیکھ برن، کھلا ہو تو چنپئی، یا کندن کا سارنگ۔ پہلے دوونو رنگ خاص ہندوستان کا حق ہیں۔ ملک کی گرمی پر خیال کرو۔ خوش آوازی کے لئے کوئل، کوکلے، پپیہے کی کوک سناتا ہے۔ یہ جانور ہندوستان کے سوا کہیں نہیں۔ رنگ کی صفائی کے لئے ابٹنا ملتے ہیں کہ سانولے رنگ کا یہی بناؤ ہے۔ فارس والے گلگونہ ملتے ہیں کہ گوری رنگت کا سنگار ہے۔ یہ کاجل لگاتے ہیں، وہاں سرمہ۔ غرض ہر ملک کا انشا پرداز اپنی اپنی چیزوں سے اپنے کلام کوسنوارتا ہے۔ اور چونکہ مطلب ان استعاروں میں ادا ہوتا ہے جو ہر وقت آنکھوں کے سامنے ہیں اور ہر جگہ عام ہیں۔ اس لئے ان کے استعارے کلام میں مزہ اور سمجھنے میں آسانی اور صفائی پیدا کرتے ہیں نہ کہ کلفت یا دشواری۔ قد کی خوبی کو بان اور اسل اور ارنڈ کی لچکتی ٹہنی سے تشبیہ دیتا ہے۔ معشوق کا گندمی یا چنپئی رنگ عام تعریفی رنگ ہے۔ وجہ اس کی یہ کہ گرمی کے سبب سے ملک کالا ہے۔ وہاں ذرا سا اجالا بھی غنیمت ہے اور گوری رنگت کا تو کیا کہنا۔ اس کی سبحان اللہ کیوں نہ ہو۔ تم نے دیکھا ہوگا بعض ہونٹوں پر ایک قدرتی تحریر سیاہی کی ہوتی ہے اور خوشنما ہوتی ہے۔ وہ عرب کے جمال کا جز اعظم ہے۔ یہ بھی ملک کی گرمی کا سبب ہے۔ حقائق زبان کا ماہر صفحہ کو الٹ کر دیکھےگا تو اور مضمون نظر آئےگا۔ وہ ان خیالات کو دیکھ کر صاف کہہ دےگا کہ یہ ملک گرم ہوگا جو وہاں کے لوگ ان وصفوں کو غنیمت سمجھتے ہیں اور ان ہی کی تعریفیں کر کے خوش ہوتے ہیں۔ عرب کا شاعر گھٹا گھنگور کو بہت پسند کرتا ہے۔ منہ کے پھوار سے خوش ہوتا ہے اور بجلی کے کوندنے کو کہتا ہے گویا سخی کے ہاتھ سیاہ چادر سے نکل کر بخشش کر رہے ہیں۔ ہائے تہی دست ہی جانتا ہے کہ سخاوت کی کیا قدر کرنی چاہئے۔ اونٹ، کھجوریں، میدان، میدانی پہاڑیاں، ہرنیاں، شتر مرغ، قطا وغیرہ وغیرہ ان کے معمولی مضمون ہیں۔ مثالی اشعار کہاں تک لکھوں۔ منخل شاعر کے قصیدہ میں سے چند شعر لکھتا ہوں۔ واذا سکرت فاننی رب الخورنق والسدیرواذا صحوت فاننی رب الشویہۃ والبعیر(جب میں مست ہوتا ہوں تو خورنق اور سدیر کا مالک ہوتا ہوں۔ ہوش میں آؤں تو بکریوں والا ہوں اور اونٹ والا) ولقد دخلت علی الفتاۃ الخذر فی یوم المطیر(میں اس بل کے کجاوے میں گھس گیا، اور اس دن بدلی چھائی ہوئی تھی) الکاعب الحسناء ترفل فی الد مقس و فی الحریر(وہ جوبن والی اس کی چھاتیاں ابھری ہوئی، اطلس کے کپڑوں اور ریشم کے لچھوں میں لہراتی ہوئی) فدفعتہا فتدافعتمشی القطاۃ الی القدیر(میں نے اسے دھکیلا اس نے مجھے، جیسے قطا تلاؤ کی طرف جائے) ولثمتہا فتنفستکتنفس الظبی الغریر(میں نے اسے لپٹا لیا تو ہانپنے لگی، جیسے کوئی پیاری ہرنی ہانپتی ہے) و احبہا و تحبنیویحب ناقتہا بعیر(میں اسے چاہتا ہوں وہ مجھے چاہتی ہے، اور میرا اونٹ اس کی اونٹنی کو چاہتا ہے) مسافرت میں استعارہ کرتا ہے تو کہتا ہے اقتعدت سنام الغربۃ، سوار ہوا میں کہان غربت پر۔ اللہ کی شان دیکھو۔ اس کا عظمت و جلال دیکھو اور ان صنائع قدرت کو دیکھو جن میں عقل عاجز ہے۔ باوجود اس کے فرماتا ہے۔ افلا تنظرون الی الابل کیف خلقت۔ فارس میں گدہوں کی سواری اور بارداری بہت ہے اس لئے انشا پردازوں کے بوجھ بھی وہی اٹھاتے ہیں۔ ایک قصیدہ کی تمہید میں متنبی کہتا ہے کہ ایران قدیم کے گھر ویران پڑے ہیں وہ چلے گئے اور غیر آن بسے۔ خلا وفیہ اہل و اوحشناوفیہ صرم مروح ابلہ(وہ گھر یاروں سے خالی ہیں۔ حالانکہ رہنے والے موجود ہیں کیونکہ اونٹوں کے گلے شام کو چرا کر آتے ہیں۔ مگر ہمارے دل کو اچاٹ کرتے ہیں کہ ہمارے یار نہیں) اب طبیعت کی لطافت دیکھو۔ اسی مضمون کو شاعر فارس کہتا ہے۔ سرغ یک نگاہ آشنا در کس نمی یابمجہاں چوں نرگستاں بے تو شہر کو رمی باشدفصیح فرنگ ایک پہاڑی جزیرہ کا رہنے والا ہے۔ وہ جب بہار کا سماں اور صبح کی بہار دیکھتا ہے تو اور رنگ سے لطف اٹھاتا ہے۔ سمندر کا کنارہ، پانی پر ہوا کا لوٹنا، موجوں کا لہرانا، جہاز دور سے نمودار ہوتا ہے، بادبان ہوا میں فراٹے لیتے ہیں، پاس پاس کشتیاں دوڑتی پھرتی ہیں۔ دام دار جال پھینک رہے ہیں، مچھلیوں کے شکار ہوتے ہیں۔ پھر شفق میں سورج کا کنارہ افق سے نمودار ہوتا ہے۔ اس کی کرنوں سے پانی جگمگاتا ہے۔ پہاڑوں کی چوٹیوں پر دھوپ سنہری رنگ دکھاتی ہے۔ کہیں دھوپ ہے کہیں چھانو ہے۔ سبزے لہلہاتے ہیں۔ چشمے بہتے ہیں۔ پانی لہراتے چلے جاتے ہیں۔ دیکھو! سمجھنے والے انہی اشاروں کو دیکھتے ہیں اور انشاپردازی سے ملک کی جغرافیائی کیفیت دریافت کر لیتے ہیں۔ یہ اختلا ف ضرور ہے کہ حسن میں ہمارے ہاں سیہ چشم کی تعریف ہے۔ ان کے ہاں کبو دچشم یا سبز چشم تعریف ہے۔ ہمارے ہاں بالوں کی سیاہی پسند ہے، وہاں سرخی یا بھورا پن۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ملک کا شاعر جو اپنی تشبیہیں اور استعارے کام میں لاتا ہے اسے اس کا قصداً ارادہ نہ سمجھو۔ بلکہ اشیا وہاں کی جو ہر دم سامنے ہیں، مجبور کرتی ہیں کہ ہم ہی کو کام میں لا۔ اور ہم ہی میں مطالب ادا کر اور وہ بھی جانتا ہے کہ اسی طرح اپنے مطلب پر جلد کامیاب ہوگا۔ کیونکہ اشیا موجودہ کے پیرایہ میں جو باتیں ادا کی جاتی ہیں، سننے والوں کے دلوں پر فوراً اثر کرتی ہیں۔ طبیعتیں لطف اٹھاتی ہیں۔ اسی کے چٹخارے زبانوں سے واہ وا کے غل مچواتے ہیں۔ جو بات سمجھ میں نہ آئے اس کا دل کیا مزا اٹھائے اور زبان کیا واہ واہ کرے۔ فارس میں گوری رنگت عام ہے۔ سستی چیز کی کوئی قدر نہیں کرتا۔ اسی واسطے اس کی انشا پردازی میں تعریف نہیں۔ ہاں اس کی سرخی و صفائی پر مرتے ہیں کہ آئینہ رخسار کے صدقے اور گل رخسار کے قربان۔ ان میں جو کہیں سانولا رنگ ہوتا ہے تو غضب ہی ہوتا ہے۔ اس کے لئے نظر بازوں نے حسن سبز اور حسن سبزینہ کے الفاظ رکھے ہیں۔ ہندوستان کی سانولی رنگت کا خیال کرتے ہیں اور مزے لیتے ہیں۔ ع کشتہ ہندم و سبزان گلابی پوشش۔ کشمیر کا نازک خیال کہتا ہے۔ حسن سبزے بہ خط سبز مراکرد اسیردامِ ہمرنگ زمیں بود گرفتار شدمآنکھوں کی خوبیاں جو ہند میں ہیں وہی وہاں ہیں کیونکہ ایک دادا کی اولاد ہیں۔ البتہ ترکوں کے حسن نے جب انداز دکھایا تو چشم تنگ کی بھی تعریف ہونے لگی۔ مے و مرغ و ریحان و آواز چنگبتِ تنگ چشم اندر آغوش تنگاس کا کیا سبب؟ وہی اصول عام یاد کرو۔ انشا پرداز جو سامنے دیکھتا ہے اسی کو سامان انشا پرداری میں داخل کرتا ہے۔ عزیزان وطن! حقیقت یہ ہے کہ زمین مذکور، قدرت کا گلزار ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ روئے زمین پر جو ہوا کا اختلاف اور موسموں کا فرق ملکوں میں ہوتا ہے وہ فرق اس کے قطعہ قطعہ میں آشکارا ہے۔ چنانچہ بعض جگہ سخت گرم ہے۔ بعض جگہ معتدل ہے یا سرد ہے۔ اضلاع جنوبی میں کرمان، یزد، لارستان وغیرہ اضلاع گرم ہیں۔ اور بعضے عرب کی طرح ریگستان ہیں۔ گرمی میں سخت گرمی ہوتی ہے اور اول کے دو مہینوں میں آندھیاں چلتی رہتی ہیں۔ جنگل کے جنگل ریت کے اڑتے ہیں۔ مگر جاڑہ اور بہار ایسے شگفتہ ہیں کہ دل شگفتہ ہوتے ہیں۔ فارس یعنی شیراز اور اس کے تمام متعلقات میں نہایت لطیف اور شگفتہ آب و ہوا ہے۔ نہ سخت گرمی ہے نہ سخت سردی۔ چھوٹی چھوٹی نہریں جاری ہیں۔ یاد کرو خواجہ حافظ کے کلام میں چشمہ اللہ اکبر اور آب رکنا باد کا کنارہ۔ پہاڑوں کے دامن ہرے ہیں اور پھولوں سے بھرے۔ سعدی اور حافظ جیسی بلبلیں جہاں زمزمے کریں، وہ خدائی باغ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ سر سبز پہاڑ اور لہلہاتے مرغزار، صحرا نشین مخلوقات کو پالتے ہیں اور ان کے مویشی کو فربہ کرتے ہیں۔ ان علاقوں میں غلے اور میوے دانے کی بہتات ہے۔ جوں جوں شمال کو چڑھتے جاؤ، آب و ہوا اچھی ہی ہوتی جاتی ہے۔ اصفہان ایک زمانہ میں پایہ تخت سلاطین صفویہ کا تھا۔ اب ویران کہلاتا ہے مگر سب آبادیوں سے زیادہ رونق دکھاتا ہے۔ گرمی شیراز سے نرم ہے۔ جاڑا زیادہ ہے۔ سال بھر میں فقط کئی ہفتہ برف ہے باقی آسمان صاف۔ برف بھی ایسی نرم کہ پڑی اور پانی ہوئی۔ مینہ بھی کچھ سخت نہیں۔ ہوا دیکھنے میں صاف اور اثر میں خشک۔ صیقل دار چیز کو جہاں چاہو رکھ دو۔ زنگ نہیں لگتا۔ چاروں فصلیں شگفتہ بہار۔ آذربائجان اور اس کے متعلقات مثلاً تبریز وغیرہ میں ایسا جاڑا پڑتا ہے کہ تھرمومیٹر 14 درجہ پر آ جاتا ہے۔ اکتوبر میں شدت سے برف پڑنے لگتی ہے۔ جنوری میں یہ عالم ہوتا ہے کہ ابھی کٹورے میں پانی ڈالا، ابھی جم گیا۔ بخاری کے پاس لکھنے پڑھنے کا سامان رکھتے ہیں۔ اس پر بھی دم بدم دوات جم جاتی ہے۔ شیشوں کے منہ بند ہوتے ہیں اس پر شربت اور عرق جم جاتے ہیں۔ انڈے ہانڈیوں اور قطیوں میں رکھتے ہیں مگر مارے سردی کے پھٹ پھٹ جاتے ہیں۔ تانبے کا آفتابہ رات کو باہر رہ جائے تو صبح ترق جاتا ہے۔ کھیتی کا یہ حال ہے کہ ہندوستان میں فروری میں کٹ جاتی ہے پنجاب میں آکر مارچ اور اپریل میں۔ وہاں 15 جولائی کو کٹتی ہے۔ ہمدان میں بھی برف بہت ہے۔ کردستان اگر چہ جنوبی ملک ہے مگر زمین بلند ہے اس لئے سرد ہے۔ شمالی ایران میں مازندان، گیلان وغیرہ گرم بھی ہیں اور سیراب بھی ہیں (جیسا ہند میں بنگالہ۔) خراسان نہایت سرد ہے مگر جو علاقہ سیستان سے ملا ہوا ہے وہ نہایت گرم ہے۔ گرمی میں کئی کئی دن باد سموم کے ڈر سے باہر نہیں نکلتے۔ ممالک مذکور کا ہر شخص بلکہ حیوان بھی بالطبع سردی کو پسند کرتے ہیں اور سردی ہی ان کی طبیعت کے موافق ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زمان قدیم میں کبھی بلخ کبھی اصفہان دارالسلطنت تھا۔ وہ برفانی ملک ہے اور رؤسا اور اہل دول اور ان کے سبب سے فرقہ فرقہ کے لوگ دارالسلطنت سے تعلق رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اہل ملک سیاحت پسند اور اکثر تجارت پیشہ ہیں اس لئے گرم ملکوں کے رہنے والے بھی اگر کچھ قدرت رکھتے ہیں تو اپنے کاروبار کی تقسیم اس طرح کر لیتے ہیں کہ گرمی ان کی سرد ملکوں میں کٹتی ہے۔ اب کہ 40-50 برس سے طہران دارالسلطنت ہے۔ 1885 کا جاڑا میں نے وہیں بسر کیا۔ سردی موذی نہیں۔ تمام فصل میں 3-4 دفع برف پڑی۔ لوگ کہتے تھے کہ گرمی زیادہ ہوتی ہے اس لئے 4-5 مہینے بادشاہ طہران کو چھوڑ دیتا ہے۔ وامن کوہ الوند میں کئی کوس تک برابر باغستان اور قدرتی سبزہ زار چلے جاتے ہیں وہ ان کا شملہ اور کوہ مری ہے۔ جب تک گرمی رہتی ہے شاہ، ارکان دولت اور خاندان شاہی سمیت وہیں رہتا ہے۔ جیسی ہمارے ملک کے لوگوں کو سردی کی برداشت نہیں ویسی ہی انہیں گرمی کی برداشت نہیں۔ سردی میں خوش رہتے ہیں اور جو ایرانی کہلاتے ہیں ٹھنڈے ہی ملک کے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔ گویا ٹھنڈا ہی ملک ان کا وطن ہے۔ یہی سبب ہوگا کہ مزاج پرسی کے فقروں میں کہتے ہیں۔ مزاج مقدس؟ احوال بخیر؟ دماغ چاق؟ کیونکہ سردی میں رہنے سے زکام وغیرہ عوارض کی کی شکایتیں رہتی ہیں۔ ہندوستان میں حکمائے ہند نے دو دو مہینے کا ایک ایک موسم کر کے سال کے چھ موسم کئے ہیں 1 بسنت۔ گریکھم۔ برکھا۔ سرت۔ ہمنت۔ سسر۔ ایران میں چار موسم ہیں۔ (۱) بہار 21 مارچ سے اپریل۔ مئی۔ 21 جون تک۔ حمل ثور جوزا(۲) تابستان21 جون سے جولائی۔ اگست۔ 21 ستمبر تک۔ سرطان اسدسنبلہ(۳) پائیز21 ستمبر سے اکتوبر۔ نومبر۔ 21 دسمبر تک۔ میزان عقربقوس(۴) زمستان21 دسمبر سے جنوری۔ فروری۔ 21 مارچ تک۔ جدید لوحوتبہار نوروزآفتاب آخر حوت پر پہنچا اور موسم میں تبدیلی نظر آئی۔ دل گھبرانے لگتے ہیں۔ آمد بہار کی تاثیر سے زمین سانس لیتی ہے۔ درو دیوار کے مسامات سے گرمی نکلتی معلوم ہوتی ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ’’زمین نفس و زدہ میگیرد‘‘۔ پھر چند روز کے بعد کچھ اس سے زیادہ ہوتا ہے کہ درو دیوار میں پسینا سا بہتا ہے۔ تب کہتے ہیں کہ ’’زمین نفس آشکار میگیرد‘‘۔ ساتھ ہی بہار کا موسم شروع ہو جاتا ہے۔ 21 یا 22 مارچ کو نو روز ہوتا ہے۔ یا تو درختوں پر پتوں کا نام نہ تھا۔ سب شاخِ بلور بنے کھڑے تھے اور زمین آسمان برف ہی برف نظر آتے تھے۔ یا برف باری موقوف ہو جاتی ہے۔ 8-10 دن کے بعد کبھی ایک آدھ دفعہ کوئی ہلکا سا جھالا پڑ گیا پڑ گیا۔ ورنہ برف بر طرف۔ زمستان موقوف۔ جہاں ہوتی ہے پانی ہوتی جاتی ہے۔ نہریں، حوض، تلاؤ وغیرہ بلکہ اکثر دریا کہ جم کر آئینہ ہو گئے تھے وہ پگھلنے لگتے ہیں۔ نہروں کی نالیوں میں چپکے چپکے پانی سر سرانے لگتاہے۔ پھر حوضوں کے اوپر کا تختہ کنارے کنارے سے پگھل جاتا ہے۔ گویا حوض نے دہن کھول دیا۔ کناروں پر سبزہ اور سبزہ میں کلیاں آ جاتی ہیں۔ نظامی، دہن نا کشادہ لبِ آبگیرکہ آید لبِ غنچہ را بوے شیرمیرے دوستو! جب تک ایسے ملکوں میں جا کر حالت مذکور کو آنکھوں سے نہ دیکھے تب تک شعر مذکور اور اس قسم کے اشعار کوئی کیا سمجھ سکتا ہے۔ اکثر شارح اور محشیوں نے صفحے سیاہ کئے ہیں اور اصل مطلب کے سایہ تک نہیں پہنچے۔ پھر دیکھ لو! انشای پردازی نے اپنے ملک کی حالت اور موسم کی کیفیت کو کیونکر ظاہر کیا ہے۔ زمیندار اپنے کھیتوں میں آتے ہیں۔ باغ والے باغوں میں پہنچتے ہیں۔ باغیچہ سب کے پاس ہیں۔ بعض کے گھروں میں چھوٹے چھوٹے خانہ باغ ہیں۔ غریب اپنے دوست آشناؤں کو لے کرانگوروں کی دار بستیں باندھتے ہیں۔ درختوں کو چھانٹتے ہیں۔ کیا ریاں صاف کرتے ہیں۔ درخت جو سوکھی جھاڑیاں نظر آتے تھے ان میں پھر جان آتی ہے۔ اس طرح کہ آج صبح کو دیکھا ٹہنیوں پر برف نہیں رہی۔ کل صبح کو دیکھا تو سبزی کی تحریر معلوم ہوئی۔ دوسرے دن دیکھا تو ہری ہری کونپلیں مگر سبزی بھی ایسی صاف شفاف کہ آنکھوں میں طراوت آئے۔ جس درخت کی طرف دیکھو زمرد کی ٹہنیاں بن گئیں۔ 8-10 دن میں ہرا بھرا درخت لہلہا رہا ہے۔ باغ وگلزار میں بلکہ گھر گھر کی کیاریوں میں گلاب کھل گیا ہے۔ درو دیوار پر سبزہ خود رو بھی اگا تو ایک گل خود رو لئے اگا۔ لوگ گھروں میں سکڑے بیٹھے تھے، نکل کھڑے ہوئے۔ بند کام جاری ہو گئے۔ آسودہ حال لوگ گھوڑوں پر چڑھے۔ دوست آشناؤں کو لے کر باغوں میں گئے۔ بہاریں منائیں۔ عورتیں بھی باغوں اور کھیتوں میں گئیں اور دل خوش کرنے لگیں۔ جس شخص کے دل پر یہ خیالات چھائے ہیں، خاقانی کے بہاریہ قصیدہ کا اسی کو مزہ آئےگا۔ نو روز برقع از رخ زیبا برافگندبر گستواں بہ دُلدُلِ شہبا بر افگندنوروز اپنے رخ رنگین سے برف کا برقع الٹ دیتا ہے۔ یا پری رویوں کے رخ زیبا سے کہ جو برف کے سبب سے لحافوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ ہر طرح لطف زیاد بر زیاد ہے۔ ادھر گلاب کھلا ادھر بلبل ہزار داستاں اس کی شاخ پر بیٹھی نظر آئی۔ بلبل نہ فقط پھول کی ٹہنی پر بلکہ گھر گھر درختوں پر بولتی ہے اور چہچہے کرتی ہے۔ اور گلاب کی ٹہنی پر تو یہ عالم ہوتا ہے کہ بولتی ہے۔ بولتی ہے۔ بولتی ہے۔ حد سے زیادہ مست ہوتی ہے تو پھول پر منہ رکھ دیتی ہے اور آنکھیں بند کر کے زمزمہ کرتے رہ جاتی ہے۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ شاعروں نے جو اس کے اور بہار کے اور گل و لالہ کے مضمون باندھے ہیں وہ کیا ہیں۔ او ر کچھ اصلیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ وہاں گھروں میں نیم کیکر کے درخت تو ہیں نہیں۔ سیب، ناشپاتی، بہ، انگور کے درخت ہیں۔ چاندنی رات میں کسی ٹہنی پر آن بیٹھتی ہے اور اس جوش و خروش سے بولنا شروع کرتی ہے کہ رات کا کالا گنبد پڑا گونجتا ہے۔ وہ بولتی ہے اور اپنے زمزمے میں تانیں لیتی ہے اور اس زور و شور سے بولتی ہے کہ بعض موقع پر جب چہ چہ چہ کر کے جوش و خروش کرتی ہے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سینہ پھٹ جائےگا۔ اہل درد کے دلوں میں سن کر درد پیدا ہوتا اور جی بے چین ہو جاتے ہیں۔ میں ایک فصل بہار میں اسی ملک میں تھا۔ چاندنی رات میں صحن کے درخت پر آن بیٹھتی تھی۔ اور چہکارتی تھی تو دل پر ایک عالم گزر جاتا تھا۔ کیفیت بیان میں نہیں آ سکتی۔ کئی دفعہ یہ نوبت ہوئی کہ میں نے دستک دے دے کر اڑا دیا۔ یہ موسم دلوں میں جوش پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ جب چاندنی رات ہوتی ہے تو چند آشنا ہم طبع، ہم نفس زندہ دلی کی امنگ میں آ کر کہتے ہیں، بیائید امشب شب گل کنیم۔ باغ جاتے ہیں۔ رات کو وہیں رہتے ہیں۔ بہار مناتے ہیں اور زندگی کی بہار لوٹتے ہیں۔ نگار خانہ قدرت کے دیکھنے والے دیکھیں گے کہ ہمارے ہندوستان کی بہار کا موسم برسات ہے۔ جو لطف وہاں بہار میں ہوتے ہیں یہاں برسات میں ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں بلبل کازمزمہ نہیں۔ کوئل کی کوک اور پپیہے کی ہوک دلوں پر آفت لاتی ہے۔ تلاؤ پڑے چھلکتے ہیں۔ جھیلیں موجیں مارتی ہیں۔ دریاؤں کے چڑھاؤ مستیاں دکھاتے چلے جاتے ہیں۔ گل اور لالہ ان دنوں میں نہیں پھولتا مگر چنپا موتیا رائے بیل وغیرہ وغیرہ پھولوں کی خوشبو سے عالم مہک جاتا ہے۔ دلوں پر بھی جو اثر شگفتگی کے برسات میں ہوتے ہیں، بہار میں نہیں ہوتے۔ گھٹا گھنگور چھائی ہے۔ کبھی مینہ برس رہا ہے۔ کبھی پھوار پڑتی ہے۔ بادل گرجتے ہیں۔ بجلیاں چمکتی ہیں۔ مور بولتے ہیں۔ باغوں میں جاتی ہیں، پنکھے چڑھتے ہیں۔ آموں کی سیریں ہو رہی ہیں۔ ٹپکا لگا ہوا ہے۔ درختوں میں جھولے پڑے ہیں۔ شاعروں نے بھی جو برسات کے گیتوں میں مزے لئے ہیں وہ بسنت میں نہیں لئے۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ قدرتی بہار بسنت کی ہندوستان میں سوائے سرسوں کے اور کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ عمر بھی تھوڑی ہے۔ دو تین ہفتہ میں گرمی آتی ہے اور سارا لطف خاک میں ملا دیتی ہے۔ ہند کے انشا پردازوں نے جب کسی باغ کا لطف یا عیش کا سما باندھا ہے تو اکثر برسات ہی کا موسم لیا ہے۔ ایران ایک قدرتی بہشت ہے۔ وہاں جن چیزوں کی بہتات ہے وہی اس کی انشا پردازی کا سامان ہے۔ گل، بلبل، سبزہ، شبنم، برف، اولے، مرغزار، آب رواں، گلشن، چمن، درخت، جوانان چمن، مرغان چمن، نغمہ سنجان چمن ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان ترکیبوں میں ہزاروں نازک اور لطیف خیالات ادا کرتے ہیں۔ گلاب کے پھول میں جو زردی ہے اسے زر گل کہتے ہیں۔ گل اپنا خزانہ لٹاتا ہے اور ہنستا ہے۔ مگر غنچہ مٹھی بند کر کے اپنی زرداری پر خوش ہوتا ہے اور مسکراتا ہے۔ شبنم بے ثباتی پر روتی ہے۔ جس طرح بلبل گل کی عاشق ہے قمری سرو کی شیدا ہے۔ اس کا گیروا لباس ہے۔ نغمے لالہ زار میں، مگر سبزہ بیگانہ ہے۔ زمزموں کی کثرت سے اس کا نام ہزار ہزار داستان، ہزار آواز رکھا ہے۔ بیسیوں صفتیں خوشنما و خوش آئندہ نکالی ہیں۔ مرغ شب خواں، خوش آہنگ آتش نوا وغیرہ وغیرہ ایک ترکیب سے کئی کئی مضمون شاعرانہ جدا گانہ پیدا کئے ہیں۔ کوہ، صحرا، مرغزار، چشمے، آب رواں کہ قدرت کے عجائب خانے ہیں، ان سے ہزار در ہزار خیالات زبان میں پرواز کرتے پھرتے ہیں۔ اہل عرب نے کھجور سے۔ انہوں نے شراب و انگور سے بلکہ اس کی تازگی، کہنگی، مستی، سیہ مستی، بد مستی، سر خوشی، خمار، سر گرانی میں، خندہ جام، گریہ شیشہ، قلقل مینا، قہقہ میان وغیرہ وغیرہ سے سرور کئے ہیں۔ انہی کی بہتات ہے کہ انشا پرداز کو اپنے رنگین مضمونوں اور استعاروں سے نکلنے نہیں دیتی۔ ایک گل کو دیکھو، کتنی عمدہ عمدہ اصطلاحیں رنگی ہیں۔ گل کردن (ظاہر ہونا) گلگشت (گلزار میں پھرنا) گل زمین (قطعہ زمین) گلک (طنز کی بات) وغیرہ سینکڑوں اصطلاحیں ہیں، کہاں تک سنوگے۔ آب رواں کی کثرت اور زمین کی شادابی اور سر سبزی نے صدہا نہیں، ہزار وں اصطلاحیں اور کنائے سرسبز کئے ہیں۔ فقط آب کی ترکیب سے جو سیراب اور خوشنما معنی پیدا ہوئے ہیں اگر لکھوں تو ایک رسالہ بنتا ہے۔ سبزہ کی خوشنمائی نے اپنی فراوانی کے سبب سے مختلف ترکیبوں میں لہلہاتے معنی پیدا کئے۔ مثلاً گنبد سبز، پل سبز، دریا ئے سبز (آسمان) سبز آخور (خوشحالی میں رہنے والا گھوڑا) سبز بخت (خوش نصیب) سبز کار، سبز گر (جو اچھے کام کرے) آغا سبز کردہ شما ہستیم (تمہارے پرورش کئے ہوئے ہیں ہم) سبزہ رنگ (سانولا معشوق) سبز تہ گلگوں۔ ان کا تعریفی رنگ اور ایک راگ بھی نام ہے۔ وغیرہ وغیرہ کیا کیا کہوں۔ شیخ نے کہا۔ برو مند بادش درخت امیدسرش سبز و رویش برحمت سفیداب تم عرب، فارس اور ہند کی انشا پردازی کو پہلو بہ پہلو ترتیب دے کر دیکھو۔ ہر ملک کے محاورے اور اصطلاحیں تمہیں بتا رہی ہیں کہ اس ملک کی کیا حالت ہے۔ سر زمین کی کیا کیفیت ہے۔ آب و ہوا کا کیاعالم ہے۔ پیداواروں کی کیا صورت ہے۔ اور لوگوں کی طبیعتوں پر اس کا اثر کیا ہے، جو زبانوں سے ظاہر ہوا ہے۔ تابستانگرمی کا موسم آیا۔ رستے برف سے بند پڑے تھے، سب کھل گئے۔ کاروان تیار ہوئے۔ سوداگروں نے دساور باندھے۔ کاریگروں کے کارخانے جاری ہوئے۔ درختوں پر میوے دانے ہرے دکھائی دینے لگے۔ پہاڑوں پر برفیں پگھلتی ہیں۔ جہاں باتی ہیں۔ سبز مخمل پر سفید چادریں بچھی ہیں۔ چشمے بہہ نکلتے ہیں۔ دریا چڑھاؤ پر آ کر زور شور دکھاتے ہیں اور موجیں مارتے چلے جاتے ہیں۔ نہریں بہتی ہیں۔ پانی کی چادریں اس زور سے گرتی ہیں کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی۔ جگہ جگہ پن چکیاں چلنے لگتی ہیں۔ پانی آگے بڑھ کر آبادیوں میں آتے ہیں۔ گھر گھر گنگا بہتی ہے۔ کھیتیاں دھوپ کی گرمی سے روز بروز زرد ہوتی ہیں۔ ہوا کی قدرتی خشکی دنوں کی جگہ گھڑیوں میں سکھاتی ہے اور جھٹ پٹ کاٹنے کے قابل کر دیتی ہے۔ باہر کسان کھیت کاٹ اناج نکال کر ٹھکانے لگاتے ہیں۔ آپ چند روز دم لیتے ہیں اور زمین کو بھی دم لینے دیتے ہیں کہ آئندہ فصل کے مسافروں کے لئے تازہ دم ہو جائے۔ باغوں میں میوے پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ بازاروں میں با سلیقہ دکاندار ایسی خوبصورتی سے دکانیں سجاتے ہیں گویا نعمت الہی کا نگار خانہ کھلا۔ سیب، ناشپاتی، بہی، انگور، رنگا رنگ بو قلموں، گھروں میں کوئی گھر خالی نہیں دو دو چار چار قسم کے درخت موجود ہیں۔ آپ میوے توڑتے ہیں کھاتے ہیں کھلاتے ہیں۔ باغ والوں کے گھروں میں باغوں سے کٹ کر میوے آتے ہیں۔ میوہ خانہ کے حجروں میں انگور خربوزے تربوز لٹکاتے ہیں کہ قندیلیں قمقمے نظر آتے ہیں۔ سیب، بہی، ناشپاتیاں اتنی ہوتی ہیں کہ دنبے اور بکریاں بھی نہیں کھا سکتیں۔ زمین کھود کھود کر ایک ایک تہ بھس کی دیتے جاتے ہیں اور تہ بتہ جماتے جاتے ہیں۔ ہوا کی لطافت اور پاکیزگی یہ ہے کہ سڑنے نہیں دیتی بلکہ پرورش کرتی ہے۔ گرم ملکوں کے لوگ اپنے اپنے اجناس لے کر ٹھنڈے ملکوں کی طرف بیچنے کو نکل جاتے ہیں۔ کیونکہ سیاحت وہاں کی فقط رسم ملکی ہی نہیں باعث زندگی ہو گئی ہے۔ شہروں میں بازار گرم ہوتے ہیں۔ بھیڑ بھاڑ سے رونق ہو جاتی ہے۔ جا بجا مرزا منش خوش پوشاک، خوش وضع خوبصورت خوبصورت لوگ پھرتے ہیں۔ گرمی کا موسم اس ولایت میں بند کاموں کو کھولتا ہے۔ منافع کو پھیلاتا ہے۔ اورعموماً گرمی آسائش اور آرام کا سامان ہے۔ دیکھو! اسی واسطے لفظ گرم نے مختلف لفظوں کے ساتھ ترکیب پا کر خوبی و خوشنمائی یاتیزی اور شوخی پیدا کی ہے۔ مثلاً حسن گرم، شعر گرم، گرم نفس (صاحب تاثیر آدمی) ، گرم صحبت (جوش محبت والا) ، گرمی ہنگامہ، گرمی بازار، گرمی صحبت، گرمی اختلاط، گرم کردن نظر (حسن یاخوشنما چیز سے نظر کا لطف اٹھانا) گرم کردن دماغ، گرمی گفتار، گرمی رفتار وغیرہ بیسیوں محاورے پیدا ہو گئے ہیں کہ معنوں میں لطف، شوخی یا زور بڑھاتے ہیں۔ اگرچہ وہاں کی گرمی ایسی ہے جیسے یہاں کا گلابی جاڑا لیکن اکثر گرم میوے اور دنبوں کے گوشت کھاتے ہیں۔ یخنیاں اور چائیں پیتے ہیں اس لئے مزاجوں کو گرمی برداشت نہیں۔ تھوڑی دیر چلتے پھرتے ہیں۔ پسینے پسینے ہو جاتے ہیں۔ دکاندار پہاڑوں سے برف ڈھیمے کے ڈھیمے کاٹ کر لاتے ہیں۔ فالودہ کی دکانیں سجاتے ہیں۔ تم نے پیسا دو پیسے دئے۔ اس نے کٹورے میں تھوڑا شربت انگور تھوڑا برف کا لچھا ڈالا اور حوالہ کیا۔ جام ازدستش گرفتیم و بسر کشیدیم۔ شکر خدا کر دیم و راہ خود گرفتیم۔ بہر حال الفاظ مذکورہ کی ترکیبوں کو دیکھو اور سمجھو کہ وہ کیونکر ملک کی حالت بتاتے ہیں۔ یا یہ کہو کہ ملک کی حالت نے محاورات مذکورہ پیدا کر دیے۔ پائینرآفتاب میزان میں آیا۔ جاڑے کا پیام لایا۔ یخ بندیاں شروع ہو گئیں۔ پہاڑوں پر چشمے بند ہو گئے۔ دریا اترنے لگے۔ نہریں سوکھنے لگیں۔ کہیں پانی ہے تو اتنا کہ اوپر انگل دو انگل برف کی پپڑی۔ نیچے پانی بہتا چلا جاتا ہے۔ اول اول پپڑی کو مکا مار کر توڑا۔ پانی بھر کر لے گئے۔ پھر محلوں میں حوض بھر لیتے ہیں۔ وہ سب یخ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ان سے اور آب انباروں کے پانی سے کام چلتے ہیں۔ یخ بندیاں دیکھتے ہی کسان زمینیں جوت کر بیج بو دیتے ہیں۔ اسی عرصہ میں برف کے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔ سب کھیتوں اور باغوں کو چھوڑ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ جو بیج بوئے تھے۔ خدا کے سپرد یا برف کے حوالے۔ وہ قدرتی دائی آپ ہی بچے نکالے گی۔ آپ ہی پالے گی۔ فردوسی نے اسی خیال میں بڑھاپے کی آمد دکھائی ہے۔ بگستر و کافور بر جا ئے مشکگل ارغواں شد بہ پائینر خشکعزیزان وطن! جب تک ممالک سر وسیر میں رہ کر موسموں کی حالتیں آنکھوں سے نہ دیکھی ہوں، اکثر کتابوں کے خاص خاص مقاموں کا مزہ نہیں آتا بلکہ سمجھ میں نہیں آتے۔ کوئی کیا جانے عکدیور شد از باغ بر خاصتہ۔ کا کیا مطلب ہے۔ اور موسم خزاں میں کھیتوں اور باغوں میں اداسی کا کیا عالم ہوتا ہے۔ غرض باہر کے کام والے شہروں میں آئے پوستین، لحاف، توشک، انگیٹھیاں، آتش دان گھر گھر میں موجود ہیں۔ ضروری سامانوں کے ذخیرے بھرے ہیں۔ میوہ خانوں میں تر و خشک میوے دھرے ہیں۔ دنبے کے دنبے یلمہ کئے ہیں اور نمک سوو کر لٹکا دیے ہیں۔ گوشت قاق تیار ہیں۔ یخنیاں اور شبدیگیں پکائیں گے۔ پلاؤ دم دیں گے اور گھروں میں بیٹھے کھائیں گے۔ اتنے میں ہوا جاڑے کی سواری لائی۔ سناٹے چلنے لگے۔ دیکھتے دیکھتے کیا باغ کیا جنگل تمام درخت زرد ہو گئے اور زردی بھی وہ کہ گویا عالم زعفرانی ہو گیا اور بعض درختوں کے پتے تو سرتا پا ایسے سرخ ہو جاتے ہیں جیسے تپا یا ہوا تانبا۔ میں ایک دن دیوان انوری پڑھا رہا تھا۔ ایک قصیدہ کے دعائیہ دو شعر آئے۔ تا ہوائے خزاں بہ بہمن ودے زر گر باغ و بوستاں باشدباغ ملک ترا بہار ے بادنہ چناں کر بپیش خزاں باشدایک طالب علم نے پوچھا کہ خزاں کو زر گر کیوں کر کہہ سکتے ہیں۔ جب میں نے اس کے سامنے کیفیت مذکورہ کا رنگ دکھایا تو اس کے چہرے پر سمجھ کا رنگ چمکا۔ خاقانی نے بھی اسی مضمون کا رنگ دیا ہے۔ سخا ہنگام درویشی فزوں تر کن کہ شاخ رزچو درویش از خزاں گردوں فزوں گرودرزرفشانشپہلے مصرع میں شاخ رز، شاخ انگور ہے اور زرافشانی، اس کی برگ ریزی ہے فصل خزاں میں۔ بہر حال ایسے مضامین بار بار میرے اس خیال کی تصدیق کرتے ہیں کہ کسی زبان کا شائق جب تک برس دو برس تک خود اس ملک میں جا کر نہ رہےگا تب تک نہ رمز سخن کو پا سکےگا نہ زبان کا لطف حاصل کر سکےگا۔ زمستاندفعتاً ہوا بند ہوئی۔ ابر سا گھر آیا۔ دنیا دھواں دھار ہو گئی۔ پھر سفید غبار سا برستا معلوم ہوا۔ تھوڑی دیر بعد دیکھا تو زمین پر کوٹھوں پر، دیواروں پر، منڈیروں پر کوئی سفید سفید آٹا سا چھڑک گیا۔ غرض کہ ایک جھکولا برف کا اور پڑا۔ رات گزری۔ صبح کو دیکھا تو تمام درختوں پر برگ ریز کا حکم پہنچ گیا۔ دوسرے دن ایک جھکولا اور ساتھ ہی ایک سناٹا ہوا کاآیا۔ پھر جو دیکھا تو درخت پر پتے کا نام نہیں۔ جو درخت ہفتہ بھر پہلے پتوں سے بھرے تھے اب خالی بھاڑیاں کھڑے ہیں، جیسے کسی نے کپڑے اتار لئے۔ وہ بھی سیاہ رنگ جیسے بجلی مارا لوہا۔ ایک دو دن بعد برف برسنی شروع ہوئی مگر کس طرح؟ جیسے کوئی آسمان پر بیٹھا روئی دھنک رہا ہے۔ ایک دن رات جو برف کا تار لگا تو درو دیوار، زمین آسمان تمام سفید۔ وہ سیاہ جھاڑیاں برف جم کربلور کے درخت اور شیشہ کی شاخیں ہو گئیں۔ دیکھنا انشا پردازی نے کیونکر جغرافیہ ملک کا نقشہ کھینچا ہے۔ بر آمد زکوہ ابر کافور بارمزاج زمیں گشت کافور خواراور شیخ سعدی نے ہنسی ہنسی میں سب کچھ کہہ دیا۔ چہ حرامزادہ مرد مانند کہ سنگہارا بستہ اند و سگہارا کشادہ۔ پہاڑوں پر برف کے پہاڑ چڑھ گئے۔ جنگلوں میں برف سے رستے رک گئے۔ سوداگر جہاں کے تہاں بیٹھ رہے۔ میدان کھیت گلی کوچہ میں گھر گھر قد آدم برفیں چڑھ گئیں۔ بازاروں میں سناٹا، کار خانے بند، غریب کاریگروں کا کاروبار ان کے ہاتھوں سے بھی سوا ٹھنڈے، کوٹھوں پر برف کے انبار ہیں، جلدی گراؤ نہیں تو گھر بیٹھا۔ امرا کے غلام، نوکر، مزدور لکڑی کے پنچ شاخے اور پھاوڑیاں لئے ہیں، برف گرا رہے ہیں۔ غریب غربا اپنا کام آپ ہی کرتے ہیں، پھر گھروں میں آ گھستے ہیں۔ آگ بغیر گزارہ نہیں۔ انگیٹھی بیچ میں لے بیٹھتے ہیں۔ جن کو خدا نے دیا ہے ان کے ہاں آتشدان اور بخاریاں روشن ہوتی ہیں، 2 کمروں کے دروازے بند ہوتے ہیں۔ وہ گھروں میں دنبے کاٹتے ہیں، مرغ ذبح کرتے ہیں۔ نہیں تو گوشت قاق کے پلاؤ دم دیتے ہیں۔ اس کی یخنیاں پیتے ہیں۔ کلے پائے اور شبدیگیں پکا پکا کر کھاتے ہیں۔ اور چائیں اڑاتے ہیں لیکن باہر تمام عالم ویرانہ ہے۔ کھیت اور باغ سب سنسان، گیدڑ لومڑی خرگوش بلکہ چوہا تک جنگل میں نظر نہیں آتا۔ اپنے اپنے بھٹوں اور بلوں میں گھس رہتے ہیں۔ اس وقت نظامی کا دیباچہ اور اس کے خزاں کے مضمون مزا دیتے ہیں۔ گرگ آشتی بھیڑیوں کو اس موسم میں سخت مشکل ہوتی ہے۔ وہ گوشت کے سوا اور کچھ کھاتے نہیں، اور کسی قسم کا ذخیرہ رکھتے نہیں۔ باہر برف کی کثرت سے کتا تک نہیں نظر آتا۔ گلے سب بند ہو جاتے ہیں۔ یہ دس دس بیس بیس جمع ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ مگر ہر بھیڑیا اس طرح بیٹھتا ہے کہ اس کی آنکھ سب پر پڑے۔ ہر چند بھوک، پیاس، تھکن سے تنگ ہوتے ہیں مگر ایک کو دوسرے پر اعتبار نہیں، اس لئے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے بیٹھے رہتے ہیں۔ آخر نیند تو ظالم ہے، کسی کی ذرا آنکھ جھپکی اور جتنے بیٹھے تھے جھٹ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ فوراً پھاڑ چیر تکا بوٹی کر کے کھا ہی جاتے ہیں۔ اسی سے اہل ملک نے اصطلاح نکالی ہے گرگ آشتی یعنی اس بد ذات جانور کے ملاپ کا بھی اعتبار نہیں۔ ملک کے لوگ اسی برف کے کیڑے ہیں۔ انہیں یہ سردی کچھ بہت دکھ نہیں دیتی۔ اس لئے بازار چلتے رہتے ہیں۔ حاجت مند بچارے یا اکثر مصیبت کے مارے سفر بھی کرتے ہیں۔ ان کے نمدی چغوں پر برف پڑی ہوئی، پلکوں پر برف جمی ہوئی، موچھیں اور ڈاڑھی میں گویا شیشہ کی سلائیاں لٹکتی ہیں۔ اس عالم میں پرند جانور بھی کم نکلتے ہیں۔ البتہ خاص قسم کے کوے اور بعض بعض جانور اڑتے پھرتے ہیں۔ ان کے پیٹھ اور بازوؤں پر برف جمی ہوتی ہے۔ اس وقت نظامی کی تشبیہ کا مزا آتا ہے کہ، مرا برف بارید بر پر زاغ، اورا نہی لوگوں کو مزا بھی آتا ہے جن کی آنکھوں کے سامنے یہ سب چیزیں ہیں کیونکہ تشبیہ اور استعارہ جتنا قریب کا ہو اتنا ہی قریب الفہم ہوتا ہے۔ اسی واسطے زیادہ مزا دیتا ہے۔ اس حالت میں کبھی جھکڑ چلنے لگتا ہے اور جو برف پڑی ہوئی تھی وہ خاک کی طرح اڑتی ہے۔ بدن اور چہرے پر چھرے کا کام کرتی ہے۔ اور کوئی ذرہ آنکھ میں پڑ جاتا ہے تو بڑی تکلیف دیتا ہے۔ اسے بادروبہ کہتے ہیں۔ ایک سال یہ جاڑے کا موسم تھا اور میں اسی ملک میں تھا۔ برفیں پڑ رہی تھیں۔ دو مہینے برابر سفر کرنا پڑا۔ دریائے سیحون رستہ میں ملا۔ اس پار سے اس پار تک ایک تختہ آئینہ کا تھا۔ شتری اور اسپی قافلے پیادہ اور سوار برابر چلے جاتے تھے۔ میں ایک بلند کنارہ پر کھڑ ادیکھتا تھا۔ چونٹیوں کی سی قطار عجب بہار دیتی تھی۔ رستہ میں کئی منزلیں ایسی ملیں کہ جہاں سرایا مکان کچھ نہ تھا جس میں ذرا سر تو چھپا بیٹھیں۔ زمین پر کمر کمر برف چڑھی تھی اور ادھر ادھر پہاڑ برف سے سفید دکھائی دیتے تھے۔ ہم نے ایک پتھر کی آڑ میں برف ہٹا کر زمین نکالی۔ ادھر ادھر سے دو چار لکڑ گھسیٹ لائے، ان میں آگ سلگائی۔ بستر کر کے پڑے اور گٹھری ہو کر سکڑ رہے۔ غنیمت یہ ہے کہ رات کو ہوا بند ہوتی ہے۔ ہم گھنٹے دو گھنٹے بعد اٹھ کر چائے بناتے ہیں۔ ایک ایک پیالی پی کر سینے گرم کرتے اور پھر پڑ رہتے تھے۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔ اس وقت شاہ ناصر خسرو کی رباعی سمجھ میں آئی کہ ایسے ہی موقع پر کہنی پڑی ہوگی۔ رباعیدو شینہ شبے کہ برف تا دوشم بودزانو چو عروس نو در آغوشم بودپوشید نی نہ بود غیر از چشمچیزیں کہ بزیر سر نہم گوشم بودلطیفہجاڑے کا موسم زور پر تھا۔ ایک قلندر مشرب کے پاس جاڑے کا کپڑا کچھ نہ تھا۔ سردی کے مارے مرنے لگا۔ کسی سے پوچھا غضب سردی ہے۔ آفتاب کس برج میں ہے؟ اس نے کہا’’عقرب میں۔‘‘ قلندر نے کہا کہ’’خدا کی لعنت عقرب پر، زمین پر بھی دکھ، آسمان پر بھی دکھ۔‘‘ تم نے دیکھ لیا۔ جب آفتاب عقرب میں ہوتا ہے تو عین جاڑے کی جوانی ہوتی ہے۔ وہاں ہاتھ پانو باہر نہیں نکال سکتے۔ یہاں ان دنوں میں ایک چادرے کا جاڑا ہوتا ہے۔ اس خیال کا لطیفہ پیدا ہوگا تو اسی ملک میں پیدا ہوگا۔ اس ملک کے لوگ سنتے ہیں چپکے ہو رہتے ہیں۔ زبان اپنی اصطلاحوں یا استعاروں کے علاوہ ادائے مطالب میں بھی ملک کے موسم سے آگاہ کرتی ہے۔ دیکھو فصیح فارس اپنی مضمون آفرینی میں ملک کی سردی کو کس طرح دکھاتا ہے۔ عجب جائیست ایں کاخ دل آویزکہ چوں جا گرم کردی گفت بر خیزجب تم تھوڑی دیر کہیں بیٹھتے ہو تو جگہ گرم ہو جاتی ہے۔ گرم ملک میں ٹھنڈی جگہ پر بیٹھنا اچھا معلوم ہوتا ہے۔ ٹھنڈے ملک میں گرم جگہ پر بیٹھنے سے آرام آتا ہے۔ پس شاعر کہتا ہے کہ دنیا عجب مقام ہے، جہاں ذرا ٓرام سے بیٹھنے کا موقع آیا اور حکم ہوا کہ اٹھ کھڑے ہو۔ آگ ایسے موقع پر فقط باعث آرام نہیں بلکہ چشمہ بہت سے منافع کا ہوتی ہے۔ نہیں نہیں اکثر موقع پر باعث زندگی ہو جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ انشائے فارسی نے اس سے بیسیوں لفظ ترکیب دیے ہیں جن سے تیزی، چستی، رونق، قدر و مرتبہ وغیرہ کے خیالات روشن ہوتے ہیں مثلاً آتش زبان، آتش بیان، آتش سخن (تیز کلام آدمی) آتش مزاج (تیز مزاج) آتش کار (چالاک) آتش لباس، سرخ لباس، آتش و آب، آتش و آب پرور، آتش مجسم (تلوار) آتش پر آب، آتش بے باد، آتش توبہ سوز، آتش سرد (شراب) آتش بے دود (سورج شراب یا غصہ) آتش پیکر، آتش زمزم، آتش بید (سورج) آتش ہندی (تیغ ہندی) وغیرہ وغیرہ بیسوں لفظ ہیں کہ خوبیٔ معنی سے مختلف کاموں اور مختلف چیزوں میں رونق اور خوبی پیدا کرتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ گائے وغیرہ بہت سی سفید چیزیں جو انسان کی آسائش اور زندگی میں مدد دیتی ہیں، ہندوؤں میں واجب التعظیم ہوئیں۔ یہاں تک کہ لوگ رفتہ رفتہ انہیں دیوتا ماننے لگے۔ کیا عجب ہے کہ ا ٓگ سے ان ملکوں میں بہت سی تکلیفیں رفع ہوتی تھیں اور اکثر قسم کے فائدے حاصل ہوتے تھے۔ شائد اول تعلیم کے لئے حکم ہوا ہو پھر رفتہ رفتہ عبادت ہونے لگی۔ بر خلاف اس کے سردی سے لوگوں کے کاروبار رک جاتے ہیں۔ فوائد میں نقصان آتے ہیں۔ پھرتے چلتے، بیٹھتے اٹھتے تکلیف اٹھاتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ جن الفاظ سے سردی ترکیب پاتی ہے معنوں میں بھی کمی، بے لطفی اور خرابی پیدا کرتی ہے۔ مثلا وعدۂ سرد، گریہ ٔ سرد، آہ سرد، ناز خنک، نوائے خنک، گفتار خنک، سرد شدن اختلاط (کمی محبت) ، سرد حرف، سرد بیان، سرد گوے، سرد مہر، سر د نفس، سرد رو، خنک طبع، خنک ادا، خنک گفتار، خنک روے وغیرہ وغیرہ بہت سے الفاظ ہیں۔ بر خلاف اس کے عرب کا ملک گرم ہے۔ اسی واسطے سردی سب کو عزیز ہے۔ جب کہتے ہیں، وکان الہواء بارد، تو ہوا کی خوش آئندگی مراد ہوتی ہے اور پانی کی برودہ سے اس کی لطافت و گوارائی مراد لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ خوش بیان فصیحوں نے عیش بارد، آرام کی زندگی، اور غنم بارد یعنی عمدہ نعمت بھی کہہ دیا۔ اور برد امرنا یعنی ہمارا کام بن گیا۔ تم ضرور کہوگے کہ فارس میں بھی خنکی چشم بمعنی راحت و آرام بولتے ہیں نہ کہ بے آرامی۔ آزاد کہتا ہے کہ یہ درست ہے لیکن اگر میرا قیاس غلط نہیں تو یہ محاورہ عرب سے آیا ہے۔ اور ترجمہ ہے قرۃ العیون کا۔ ایران میں بہت محاورے عرب سے آئے ہیں۔ انہی میں یہ بھی آیا ہوگا۔ (دیکھو صفحہ 234) تم کہوگے کہ اس محاورہ کی خصویت نہیں خنکی زبان فارسی میں اور جگہ بھی لطف و خوبی پیدا کرتی ہے۔ شیخ سعدی نے کہا ہے، خنک روز محشر تن دادگرکہ در سایۂ عرش دارو مقرمیرے دوستو! غور کرو یہ محاورہ نہیں بلکہ ایک مذہبی روئداد کا بیان ہے۔ تم جانتے ہو کہ قیامت کے دن گرمی کی شدت کس درجہ پر ہوگی۔ تابش آفتاب سے سر کا بھیجا پگھل کر ناک سے ٹپک جائےگا۔ اور زمین تانبے کی طرح تپے گی۔ شاعر کہتا ہے کہ جس دن گرمی کا یہ عالم ہوگا، اس دن داد گر کا تن بدن خنک ہوگا اور وہ عرش کے سایہ میں ہوگا۔ زبان ایران یہ بھی کہتی ہے کہ میری سر زمین تمام کوہستان ہے جو بے شمار خلقت سے ا ٓباد ہے۔ یہی سبب ہے کہ پہاڑ کے متعلق بہت سے محاورے استعارہ اور خیالات ان کی انشا پردازی میں پائے جاتے ہیں۔ مثلاً کوہ پشت (کوز پشت کو کہتے ہیں اس کے کب کی شباہت کے سبب سے) کوہ جگر (شجاع)، کوہئہ آب (موج آب۔ اسے اپنے دریا یا نہروں کی لہر نہ سمجھو۔ سمندر اور اس کے طوفانوں کی طرف خیال کرو) اور عموماً بلندی کا اشارہ بھی اسی لفظ سے کرتے ہیں۔ مثلاً کوہئہ زمین۔ یا پیش کوہہ اور پس کوہہ یعنی اس کے آ گے کی بلندی اور پیچھے کی بلندی۔ فصیح فارس اپنے سرور میں آتا ہے تو کہتا ہے درعا لم یکہ کوہ بنگ از سر پریدہ بود۔ کبھی کہتا ہے، کوہ تا کوہ بنگ از سر پریدہ بود اور کوہ کوہ کیف از سر سیگذشت۔ یہ استعارے بھی ملک کی سر سبزیوں نے زبان کو دیے ہیں۔ کمر اور چوتڑوں کی تعریف میں شاعر نے کہا، کوئی معشوق سے پوچھو۔ ’’کوہ را با تار ہوئے بستیٔ آخر چہ ساں؟‘‘ اور جلد پھر آنے کے موقع پر کہا۔ چوں صدا از کوہ برگشت اور چوں سیل از کوہ بزیر آمد۔ پہاڑ کے مختلف حصوں کے نام اس کی صورت حال کے بموجب تراشے ہیں۔ اور ضرور ایسا ہونا چاہئے تھا کیونکہ وہیں کا رہنا سہنا ہے۔ کام کاج آنے جانے میں اور ہر موقع اتا پتا بتانے میں جدا جدا جگہ کے واسطے جدا جدا نام چاہئے ہیں۔ اس سے زبان کی وسعت معلوم ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کاروبار میں ہرج ہوتے۔ مثلا کمر کوہ، دامن کوہ، تیزئے کوہ، تیغ کوہ، بینیٔ کوہ، قلۂ کوہ، درہ کوہ، کوہ پایہ۔ اسی صورت حال کو اور موسم کی کیفیت کو دیکھ کر ملک کے شاعر نے کہا، بر آمد زکوہ ابر کافور بارمزاج زمیں گشت کافور خوارآفتاب از کوہ سر بر میزندمہ من انگشت بر در میزندملا محتشم کاشی نے مرثیہ میں کہا، چوں شد بہ نوک نیزہ سر آں بزرگوارخورشید سر برہنہ بر آمد زکوہساردیکھو وہ ایک صاحب زبان کا خیال تھا جو کہ خالص خیال بند تھا۔ میر انیس مرحوم ہند کے شاعر تھے انہوں نے اسی خیال کو رنگین کیا۔ تھا بسکہ روز قتل شہ آسماں جنابنکلا تھا خون ملے ہوئے چہرہ پہ آفتاباور کسی اہل زبان نے بڑھاپے کے سر کو دیکھ کر کہا۔ آفتاب بر سر کوہ است۔ یاد کرو شعر مذکورۂ بالا۔ مرا برف بارید بر پرزاغ۔ تم نے دیکھا اس طرح ایک زبان بتاتی ہے کہ میرے بولنے والے کن خیالات کے لوگ ہیں؟ اور میں کس ملک کا سبزہ خود رو ہوں؟ اگر چہ چار موسم اپنا اپنا لطف جدا جدا رنگوں میں دکھاتے ہیں مگر عموماً ہر موسم میں زمین سر سبز و شاداب ہی دکھائی دیتی ہے۔ خشک یا شورزار قطعہ بہت کم نظرآتا ہے۔ جدھر دیکھو ہر یاول لہلہاتی ہے۔ اور سبزہ ہوا سے پانی کی طرح لہریں مارتا ہے۔ سبزی جتنی تیز ہے اس سے سوا گلریز ہے۔ درخت جتنے ہرے ہیں اس سے زیادہ پھولے پھلے ہیں۔ جو ہوا آتی ہے صبا ہے یا نسیم ہے۔ بو آتی ہے تو نگہت ہے یا شمیم ہے۔ آسمان بھی یہ آسمان نہیں، جب دیکھو رنگ نکھرا ہوا ہے۔ اسی کو دیکھ کر کہتے ہیں۔ چرخ فیروزی، چرخ مینائی، فلک مینا رنگ، چرخ آئینہ فام، آبگون، آبگینہ رنگ، چرخ نیلی، چرخ نیلگوں، گوے لاجورہ اور گنبد لاجوری۔ حق پوچھو تو یہ الفاظ اسی آسمان کے لئے زیبا ہیں نہ کہ فلک ہند جس کے نیچے سدا خاک اڑے۔ بلبل ہزار داستان کا زمزمہ اور تدرو کا قہقہہ ناحق مشہو رہو گیا ہے۔ وہاں ہزاروں جانور ہیں۔ جو ہے اپنی اپنی ٹہنی پر بل بل اور آشیانہ پر ہزار داستان ہی ہے۔ خوش رنگ ایسے ہیں کہ شوخی آنکھوں کو قوت دیتی ہے۔ وہاں کی چڑیا کا رنگ بھی ڈہڈہاتا ہے، نہ کہ ہندوستان کی چڑیا جس کے بھوسلے رنگ سے خاک جھڑتی ہے۔ چرندوں کو دیکھو تو غزال و آہو۔ ہرنیاں گوزن، گورخر نیلہ گاؤ وغیرہ خوشنما جانور دامن دشت اور دامن کوہ میں قلاچیں مارتے پھرتے ہیں۔ اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ خواجہ حافظ نے کیا کہا ہے، اور کس عالم میں کہا ہے۔ صبا بہ لطف بگو آن غزال رعنا راکہ سر بکوہ و بیاباں تو دادہ ماراپہاڑوں کے چشمے میدانوں میں نہریں بہاتے ہیں اور شہروں میں پانی پہنچاتے ہیں۔ گھر گھر گنگا بہہ رہی ہے۔ کوئی مکان ایسا نہیں جہاں پانی جاری نہ ہو۔ ان کی انشا پردازی سے ٹپکتا ہے کہ قدرتی خوشنمائیاں ہر وقت سامنے ہیں۔ اور وہی لوگ ہیں کہ مزے لے لے کر ان پہاڑوں کے لطف اٹھاتے ہیں۔ شستہ الفاظ، عمدہ ترکیبیں، لطیف اشتقاق، نازک خیالات، پاک تشبیہیں اور استعارے تراشتے ہیں مثلاً۔ آب رو (عزت) اکنوں معاملہ اش آبے برروئے کار آوردہ (اب اس کے کام نے ذرا رونق بہم پہنچائی ہے) اور کہتے ہیں پیش فلافی رفتیم۔ دیدیم در عالم آبست۔ پشیما ں شدیم و برگشتیم (یعنی شغل شر ابخواری میں تھا یا مست تھا) آبش از سر گذشتہ است (خرابی حد تدارک سے گذر گئی ہے) آب دردیدہ ندارد (بے حیا ہے) آب در جوال میکو بد۔ آب بہ غربال می پیماید۔ آب در سبد میکند۔ میخواہد آب بر سیماں بندو (بے فائدہ کام کرتا ہے۔ تم جانتے ہو پانی پر تیل ڈالتے ہیں تو اوپر آ جاتا ہے۔ اسی بنا پر جب کوئی ظاہر میں دوستی دکھاتا ہے اور چکنی چپڑی باتیں بنا کر مطلب نکالنا چاہتا ہے تو کہتے ہیں بازی نخوری آغا۔ ایں روغنے است کہ بر روئے آب پاشیدہ۔ معاملہ اش آب درمیان دارد (اس میں کچھ دغا ہے) پر حذر باشی از فلانی کہ آبے است در زیر کاہ۔ تم نے بھی اکثر برسات میں دیکھا ہوگا۔ میدان میں پانی پھیلا ہوتا ہے۔ تم ایک ہری گھاس پر قدم رکھتے ہو، نیچے زمین ہے۔ پاؤں رکھا تو غڑپ پانی میں جا پڑا۔ اسی واسطے جس شخص کا ظاہر خوشنما اور باطن خراب ہوتاہے کہتے ہیں آب زیر کاہ است۔ تنک آب (کم ظرف) دریا سے جلد عبور کر جانے کے موقع پر کہتے ہیں۔ ہمچو باد از روئے آب گذشت۔ پانی کی بہتات نے بہت سے عمدہ وصف اپنے موصوفوں کے لئے پیدا کئے اور انشا پرداز نے کہا۔ شعر تر، نغمۂ تر (مزہ دار شعر یا نغمہ) گوہر تر (آبدار موتی) تر دست (صنعت گر کامل یا سخی تر زبان (فصیح) وغیرہ وغیرہ۔ پانی کی مختلف حالتوں اور کاموں کے سبب سے بہت کہاوتیں نکل آئیں۔ مثلاً آب آمد تیمم بر خاست۔ آب ندیدہ موزہ کشیدہ وغیرہ وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ پانی کی کثرت نے انہیں قدرتی چشموں کی طرح زبان سے جاری کیا ہے جس سے ہماری طبیعتیں بالکل محروم ہیں۔ بابر نے اپنی توزک میں یہ نکتہ خوب کھولا۔ لکھتا ہے ’’اہل ہند کے دل ان کیفیتوں سے ایسے بے مذاق ہیں کہ ا گر سیر و سفر میں ہوں اور اتفاقاً آب رواں کے کنارے آن اتریں تو ادھر خیمہ کی پشت کرتے ہیں۔‘‘ وہ شگفتہ مزاج لوگ اپنے دلوں کو ہمیشہ انہی گلزاروں میں شگفتہ رکھتے ہیں۔ اسی واسطے طبیعت بات بات میں شگفتگی دکھاتی رہتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ خوشی نے اپنے اصلی معنوں سے بڑھ کر بہت سے معنوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ چنانچہ کہتے ہیں۔ کباب خوش نمک۔ اور طعام خوش نمک (جس میں اعتدال سے نمک ہو، اور خوب اور اچھا۔ خوش انگشت۔ خوش نواز (اچھا ستار بجانے ولا) خوش خواہش، خوش کام، معشوق خوش کنار، گوہر خوش آب، خوشنما، خوش جلا، خوش نظر، خوش طینت، خوش نہاد، خوشرو، اسی طرح شاداب، شادبہر، شاد کام وغیرہ وغیرہ اس طرح کی بیسیوں ترکیبیں ہیں۔ لطیفہشاہ طہماسپ کے حضور میں حکیم حسن گیلانی اول روز باریاب ہوا تو نوجوان اور نہایت حسین تھا۔ بادشاہ نے حال پوچھا اور مسکرا کر کہاع۔ خوش طبیبے است بیاتا ہمہ بیمار شویم۔ اور کثرت کے معنی بھی پیدا کرتا ہے۔ چنانچہ مرد خوش برگ (بسیار سامان۔ درخت خوش ثمر۔ باغ خوش حاصل، زمین خوش حاصل، اور سر خوش، اور دل خوش میں اور ہی لطف پیدا ہوتا ہے۔ خوش دوا، خوش حساب، خوش معاملہ اور ہی معنی دیتا ہے۔ خوش غلاف وہ تلوار کہ ذرا سے اشارہ میں میان سے نکل آئے۔ خورم مرکب ہے، خور رم سے، اس کے معنی سر سبز و شاداب کے ہو گئے۔ اسی سے عہد قدیم میں خورم روز ایک عید کا نام تھا۔ پھر خورم گاہ اور مکان خورم اور فضائے خورم اور گلستان خورم و دلکش اور خورم روئے بصورت وغیرہ وغیرہ بہت سی ترکیبیں پیدا کیں۔ اور اسی طرح شگفتہ رو، شگفتہ مزاج، شگفتہ طبع، شگفتہ کلام، اور زمین شگفتہ اور جبین شگفتہ وغیرہ وغیرہ۔ انہوں نے شہر شہر لطف و خوبی کی حالت او ر وقت کی لطافت کو انتخاب کر کے کیا ہے اور شعرا نے ضرب المثل کر کے نظم کیا ہے کہ زبان زد خاص و عام ہے۔ علی الصباح نشاپور و خفتن بغدادنماز دیگر مروونماز شام ہراتاور ہندوستان میں اس کے مقابل صبح بنارس اور شام اودھ ہے۔ غریب سے غریب ہوگا مگر گھر میں ہوگا توگھر کو قدرتی سنگاروں سے سجائے گا۔ باہر جائے گا تو آب رواں کی سیرا در گلگشت سے جی بہلائے گا۔ لفظ گلگشت کی ترکیب دلالت کرتی ہے کہ ان کی چہل قدمی گلزاروں میں واقع ہوتی ہے۔ یہی شگفتگی ان کے مزاجوں کو شگفتہ رکھتی ہے کہ ہفتہ دو ہفتہ بعد ملا، شاعر سوداگر، پیشہ ور غرض اپنے اپنے ڈھنگ کے ہم طبع اور ہم نفس باغوں میں جاتے ہیں۔ گھروں سے سامان لے جاتے ہیں۔ درختوں کے نیچے آب رواں کے کنارے چبوترے بنے ہوتے ہیں۔ ان پر یا جہاں موقع کی جگہ پاتے ہیں فرش بچھاتے ہیں۔ سامنے مرغزار ہرے ہیں۔ دامن کوہ لالہ و گل سے بھرے ہیں۔ پہلو میں پلاؤ دم ہو رہا ہے۔ ایک طرف کباب لگے ہوئے۔ چائے کی پیالی چل رہی ہے۔ شعر خوانیاں ہو رہی ہیں۔ زمزمے اڑ رہے ہیں۔ دو تین دن زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں او رچلے آتے ہیں۔ عرفی کہتا ہے، فصل گل رفت عبث حیف شرابے نہ زویمبہ کباب جگر خود نمک آبے نہ زویماشک خوں گشت سر چشمہ چشم بہ امیدخیمہ بر آب رواں ہمچو حبابے نہ زویمجن لوگوں نے دامن کوہ نہ دیکھا، اس میں چشمہ کار ساؤ نہ دیکھا، دامن صحرا میں بہاؤ نہ دیکھا، انہیں کیا مزا آئےگا کہ اشک کا آنکھ سے بہنا اور چشمہ سے پانی کا رسنا کیسی تشبیہ ہوئی۔ میووں کی آبداری اور شادابی کا یہ عالم ہے کہ منہ میں ڈالو تو شربت ہوئے جاتے ہیں۔ پھوگ کا نام نہیں۔ خربوزہ کا ٹو تو شیرہ اور شربت پڑا بہتا ہے۔ نزاکت کا یہ حال ہے کہ پکی ہوئی فالیز کے برابر سے سوار گھوڑا مارے نکلتا ہے تو دہقان بچارا ہاتھ باندھے دوڑاآتا ہے کہ برائے خدا گھوڑا نہ دوڑاؤ، دھمک سے میرے خربوزہ پھٹ جائیں گے۔ انگوروں کے خوشے جب درخت سے کاٹتے ہیں تو دانے پھوٹ پھوٹ کر رس کے سراتے بہتے ہیں۔ وہاں کے چقندر یہاں کے شلجموں سے بڑے ہوتے ہیں۔ جوش کر لیتے ہیں یا بھوبل میں دبا دیتے ہیں۔ صبح کو چنگیریوں میں رکھ کر گلی کوچوں میں پھانکیں کاٹ کاٹ کر بیچتے ہیں۔ مٹھاس کا یہ عالم ہوتاہے کہ ان کے عرق کا قند بناتے ہیں۔ سفیدی میں برف اور لطافت میں ہمارے قند سے بہتر ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی سی کلہاڑیاں ہوتی ہیں ان سے توڑتے ہیں۔ رات کے وقت اس پر چوٹ لگاتے ہیں تو آگ کے پتنگے اڑتے ہیں۔ اسی بنیاد پر صدہا محاورے اور اصطلاحیں شیرینی کی پیدا ہو گئی ہیں۔ ہر ایک نایاب اور خوشنما اور خوش آئندہ چیز کو شیریں کہتے ہیں۔ خوش حرکات اور خوش مزاج بچہ کو کہتے ہیں۔ عجب بچہ شیر ینی است۔ اور خواب شیریں، میٹھی نیند، معشوقہ کا نام شیریں، معشوقہ کی صفہ میں شیریں حرکات، شیریں شمائل، شیریں کار، شیریں خرام، شیریں بہانہ، شیریں ادا، شیریں کلام، شیریں مقال وغیرہ وغیرہ بہت سی ترکیبیں پیدا کی ہیں۔ اور دہنش شیریں کن (یعنی کچھ رشوت دو) شیریں کار (جو شخص اچھے اچھے کام کرے) شیریں باف (ایک بہت اچھا کپڑا ہوتا ہے۔ شکر و قندمی شکند (عجب میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے۔) صحبت ہمدگر شیرو شکر است (ان کی خوب مزے میں گزرتی ہے) شکر خواب (خواب خوش) شکر ریز (دلہن کا نچھاور، اور وہ اکثر شگون کے طور پر مٹھاس کی قسم سے ہوتی ہے) غرض کی قند اور شکر کی ترکیب سے سیکڑوں میٹھی میٹھی اصطلاحیں اور محاورے نکالے ہیں۔ زبان میں مہارت پیدا کرو اور اہل زبان کے کلام پر عبور کرو۔ پھر ان بیانوں کو ان سے مطابقت دو تو لطف حاصل ہو۔ اس ملک کو نگار خانہ قدت کہیں یا صنعت خانہ الہی سمجھیں۔ قلمدان میں جس قدر آب و رنگ الفاظ و عبارت کے تھے اس کے نقشہ میں لگا دیے مگر دل کا ارمان نہیں نکلا۔ خیر۔ مجھے ملک کا زبان ملک سے تعلق دکھانا ہے۔ اس کے لئے اتنا کافی ہے۔ اب اس نقشہ کو لپیٹنا چاہئے۔ اور اس مضمون پر خیال لگانا چاہئے کہ اس رنگین زبان کی طرز کو اور زبانوں کی طرز سے کیا نسبت ہے۔

حاشیے(۱) ہند کی انشا پردازی میں جب کوئی مہمان یا مسافر کہیں پہنچا ہے تو اس کی تعظیم و تواضع کے سامانوں میں کھٹرس بھوہن یا ششرس بھوجن ضرور کھلایا جاتا ہے۔ میں حیران تھا کہ اگر ایک کھانے میں چھ مزے دیں تو وہ کھانا کیا کھانا ہوگا؟ بہت لوگوں سے پوچھا مگر خاطر جمع نہ ہوئی۔ ایک دن استاد مرحوم سے ذکر آیا۔ انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان میں سال بھر کے چھ موسم ہیں۔ ہر موسم اپنی بہار کا لطف الگ رکھتا ہے اور اس کے میوے دانے بھی الگ الگ لطف و لذت رکھتے ہیں۔ اس سے یہ مراد ہے کہ صاحب خانہ نے اپنی محبت یا اعتقاد یا صفائی دل کے کمال سے مہمان کو وہ لطف دکھایا کہ آگے چھٹوں فصلوں کی لذتیں حاصل ہو گئیں اور حقیقت میں عمر انسان کی انہی چھ فصلوں میں گذرتی ہے۔ پس گویا لطف زندگی سے کامیاب کر دیا۔ اب خیال کرو ملک کی موسمی تقسیم نے یہ خیال ہند میں پیدا کیا۔ جن ملکوں میں یہ تقسیم نہیں وہاں یہ خیال پیدا کیوں کر ہو سکتا ہے اور لوگوں کو اس سے کیا لطف حاصل ہو سکتا ہے۔ (۲) آتش دان کے سامنے آتشگیر (دسپناہ) آتش کش، قبر، خاکریز وغیرہ کئی چیزیں موجود رہتی ہیں۔

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse