ہر ایک بات تری بے ثبات کتنی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر ایک بات تری بے ثبات کتنی ہے
by بیخود دہلوی

ہر ایک بات تری بے ثبات کتنی ہے
پلٹنا بات کو دم بھر میں بات کتنی ہے

ابھی تو شام ہوئی ہے ابھی تو آئے ہو
ابھی سے پوچھ رہے ہو کہ رات کتنی ہے

وہ سنتے سنتے جو گھبرائے حال دل بولے
بیان کتنی ہوئی واردات کتنی ہے

ترے شہید کو دولہا بنا ہوا دیکھا
رواں جنازے کے پیچھے برات کتنی ہے

کسی طرح نہیں کٹتی نہیں گزر چکتی
الٰہی سخت یہ قید حیات کتنی ہے

ہماری جان ہے قیمت تو دل ہے بیعانہ
گراں بہا لب نازک کی بات کتنی ہے

جو شب کو کھلتے ہیں غنچے وہ دن کو جھڑتے ہیں
بہار باغ جہاں بے ثبات کتنی ہے

مہینوں ہو گئے دیکھی نہیں ہے صبح امید
کسے خبر یہ مصیبت کی رات کتنی ہے

عدو کے سامنے یہ دیکھنا ہے ہم کو بھی
کدھر کو ہے نگہ التفات کتنی ہے

غزل لکھیں بھی تو کیا خاک ہم لکھیں بیخودؔ
زمین دیکھیے یہ واہیات کتنی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse