Jump to content

ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں

From Wikisource
ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
by اکبر الہ آبادی
295402ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیںاکبر الہ آبادی

ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
یہ سچ بھی ہے کہ مزا بے یقیں تو کچھ بھی نہیں

تمام عمر یہاں خاک اڑا کے دیکھ لیا
اب آسمان کو دیکھوں زمیں تو کچھ بھی نہیں

مری نظر میں تو بس ہے انہیں سے رونق بزم
وہی نہیں ہیں جو اے ہم نشیں تو کچھ بھی نہیں

حرم میں مجھ کو نظر آئے صرف زاہد خشک
مکان خوب ہے لیکن مکیں تو کچھ بھی نہیں

ترے لبوں سے ہے البتہ اک حلاوت زیست
نبات قند شکر انگبیں تو کچھ بھی نہیں

دماغ اب تو مسوں کا ہے چرخ چارم پر
بڑھا دیا مری خواہش نے تھیں تو کچھ بھی نہیں

بہ قول حضرت محشرؔ کلام شاعر کا
پسند آئے تو سب کچھ نہیں تو کچھ بھی نہیں

وہ کہتے ہیں کہ تمہیں ہو جو کچھ ہو اے اکبرؔ
ہم اپنے دل میں ہیں کہتے ہمیں تو کچھ بھی نہیں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.