ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
Appearance
ہر اک یہ کہتا ہے اب کار دیں تو کچھ بھی نہیں
یہ سچ بھی ہے کہ مزا بے یقیں تو کچھ بھی نہیں
تمام عمر یہاں خاک اڑا کے دیکھ لیا
اب آسمان کو دیکھوں زمیں تو کچھ بھی نہیں
مری نظر میں تو بس ہے انہیں سے رونق بزم
وہی نہیں ہیں جو اے ہم نشیں تو کچھ بھی نہیں
حرم میں مجھ کو نظر آئے صرف زاہد خشک
مکان خوب ہے لیکن مکیں تو کچھ بھی نہیں
ترے لبوں سے ہے البتہ اک حلاوت زیست
نبات قند شکر انگبیں تو کچھ بھی نہیں
دماغ اب تو مسوں کا ہے چرخ چارم پر
بڑھا دیا مری خواہش نے تھیں تو کچھ بھی نہیں
بہ قول حضرت محشرؔ کلام شاعر کا
پسند آئے تو سب کچھ نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ کہتے ہیں کہ تمہیں ہو جو کچھ ہو اے اکبرؔ
ہم اپنے دل میں ہیں کہتے ہمیں تو کچھ بھی نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |