ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
by عبدالرحمان احسان دہلوی

ہر آن جلوہ نئی آن سے ہے آنے کا
چلن یہ چلتے ہو عاشق کی جان جانے کا

قسم قدم کی ترے جب تلک ہے دم میں دم
میں پاؤں پر سے ترے سر نہیں اٹھانے کا

ہماری جان پہ گرتی ہے برق غم ظالم
تجھے تو سہل سا ہے شغل مسکرانے کا

قسم خدا کی میں کچھ کھا کے سو رہوں گا صنم
جو ساتھ اپنے نہیں مجھ کو تو سلانے کا

نصیب اس کے شراب بہشت ہووے مدام
ہوا ہے جو کوئی موجد شراب خانے کا

بہت سے خون خرابے مچیں گے خانہ خراب
یہی ہے رنگ اگر تیرے پان کھانے کا

ہماری چھاتی پہ پھرتا ہے سانپ یاں احساںؔ
وہاں ہے شغل اسے زلف کے بنانے کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse