ہر آن تمہارے چھپنے سے ایسا ہی اگر دکھ پائیں گے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر آن تمہارے چھپنے سے ایسا ہی اگر دکھ پائیں گے ہم
by نظیر اکبر آبادی

ہر آن تمہارے چھپنے سے ایسا ہی اگر دکھ پائیں گے ہم
تو ہار کے اک دن اس کی بھی تدبیر کوئی ٹھہرائیں گے ہم

بیزار کریں گے خاطر کو پہلے تو تمہاری چاہت سے
پھر دل کو بھی کچھ منت سے کچھ ہیبت سے سمجھائیں گے ہم

گر کہنا دل نے مان لیا اور رک بیٹھا تو بہتر ہے
اور چین نہ لینے دیوے گا تو بھیس بدل کر آئیں گے ہم

اول تو نہیں پہچانو گے اور لو گے بھی پہچان تو پھر
ہر طور سے چھپ کر دیکھیں گے اور دل کو خوش کر جائیں گے ہم

گر چھپنا بھی کھل جاوے گا تو مل کر افسوں سازوں سے
کچھ اور ہی لٹکا سحر بھرا اس وقت بہم پہنچائیں گے ہم

جب وہ بھی پیش نہ جاوے گا اور شہرت ہووے گی پھر تو
جس صورت سے بن آوے گا تصویر کھنچا منگوائیں گے ہم

موقوف کرو گے چھپنے کو تو بہتر ورنہ نظیرؔ آسا
جو حرف زباں پر لائیں گے پھر وہ ہی کر دکھلائیں گے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse