ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں
by فائز دہلوی

ہر آشنا سے اس بن بیگانہ ہو رہا ہوں
مجلس میں شمع رو کی پروانہ ہو رہا ہوں

مجھ کو ملامت خلق خاطر میں ناہیں ہرگز
زلفاں کی فکر میں میں دیوانہ ہو رہا ہوں

ساقی شراب و ساغر اب چاہتا نہیں ہوں
اس کے خیال سوں میں مستانہ ہو رہا ہوں

اس کے خیال سوں میں تنہا نشیں ہوں دائم
وحشی سا میں سبن سوں بیگانہ ہو رہا ہوں

دیکھ اس کی لٹ کا پھاندا بھولا ہوں آب و دانہ
فائزؔ اسیر اس کا بے دانہ ہو رہا ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse