ہر آرزو میں رنگ ہے باغ و بہار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہر آرزو میں رنگ ہے باغ و بہار کا
by چندر بھان کیفی دہلوی

ہر آرزو میں رنگ ہے باغ و بہار کا
کانٹا بھی ایک پھول ہے اس خار زار کا

کچھ اس طرح سے آؤ کہ دل کو خبر نہ ہو
کچھ وصل میں بھی لطف رہے انتظار کا

بوئے وفا نہ ڈھونڈھئے لالہ کے داغ میں
کیا یہ بھی کوئی دل ہے کسی دل فگار کا

لغزش ہوئی تو پاؤں پہ ساقی کے گر پڑے
بے ہوشیوں سے کام لیا ہوشیار کا

سر چشمۂ سراب فریب مجاز ہے
کیا اعتبار زندگئ مستعار کا

عرفاں کی روشنی سے کدورت چلی گئی
آئینہ بن گیا مرے مشت غبار کا

دور شباب کی وہ ترنگیں کہاں گئیں
خمیازہ دیکھتا ہے یہ کیفیؔ خمار کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse