ہرگز کبھی کسی سے نہ رکھنا دلا غرض

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہرگز کبھی کسی سے نہ رکھنا دلا غرض
by شاد عظیم آبادی

ہرگز کبھی کسی سے نہ رکھنا دلا غرض
جب کچھ غرض نہیں تو زمانے سے کیا غرض

پھیلا کے ہاتھ مفت میں ہوں گے ذلیل ہم
محروم تیرے در سے پھرے گی دعا غرض

دنیا میں کچھ تو روح کو اس جسم سے ہے کام
ملتا ہے ورنہ کون کسی سے بلا غرض

وصل و فراق و حسرت و امید سے کھلا
ہم راہ ہے ہر ایک بقا کے فنا غرض

اک پھر کے دیکھنے میں گئی سیکڑوں کی جاں
تیری ہر اک ادا میں بھری ہے جفا غرض

دیکھا تو تھا یہی سبب حسرت و الم
مجبور ہو کے ترک کیا مدعا غرض

کیونکر نہ روح و جسم سے ہو چند دن ملاپ
اس کو جدا غرض ہے تو اس کو جدا غرض

الزام تاکہ سر پہ کسی طرح کا نہ ہو
اے شادؔ ڈھونڈتی ہے بہانے قضا غرض

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse