ہجر ہے اب تھا یہیں میں زار ہم پہلوئے دوست

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر ہے اب تھا یہیں میں زار ہم پہلوئے دوست
by رشید لکھنوی

ہجر ہے اب تھا یہیں میں زار ہم پہلوئے دوست
میرے بستر پر مجھے تڑپا رہی ہے بوئے دوست

ختم زینت ہو گئی مشاطہ نے لے لیں بلائیں
گیسوئے پر خم نے چومے شانہ و بازوئے دوست

امتحاں قوت کا ہے تلوار اٹھائی جاتی ہے
اب تو اس قابل ہوئے ہیں پنجہ و بازوئے دوست

زخم کھاتا بڑھ کے میں اور وہ لگاتا بڑھ کے تیغ
دل مرا بڑھتا تو بڑھتی قوت بازوئے دوست

گھٹ گیا یاں خون اور واں فصد کا ساماں ہوا
آ گیا غش مجھ کو جب باندھا گیا بازوئے دوست

جان آدھی رہ گئی دیکھی جو غصے کی نظر
دل پہ اک بجلی گری جب ہل گئے ابرئے دوست

مجھ کو جن سے عشق ہے ان کو ہے مجھ سے دشمنی
یاں وہ آتے تھے کہ الجھے پاؤں گیسوئے دوست

کعبہ جس کو لوگ کہتے ہیں مکاں ہے یار کا
عرش اعظم نام رکھتے ہیں زمین کوئے دوست

میرے سینے میں ہوئی کیوں خانۂ دل کی بنا
یہ مکاں بننے کے قابل تھی زمین کوئے دوست

زخمیٔ الفت ہوں میں صحت نہیں ہوگی مجھے
بھر رہی ہے دل کے زخموں میں ہوائے کوئے دوست

بخشتی ہے روح کو ہر مرتبہ اک تازگی
مجھ کو مرنے ہی نہیں دیتی ہوائے کوئے دوست

طالب دیدار ہیں ہے صاف آنکھوں سے عیاں
گو کہ منہ سے کچھ نہیں کہتے گدائے کوئے دوست

دشمن ایذا دیتے ہیں ہر مرتبہ مجھ کو رشیدؔ
غصہ آتا ہے مگر میں دیکھتا ہوں سوئے دوست

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse