ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
by ثاقب لکھنوی

ہجر کی شب نالۂ دل وہ صدا دینے لگے
سننے والے رات کٹنے کی دعا دینے لگے

آئیے حال دل مجروح سنیے دیکھیے
کیا کہا زخموں نے کیوں ٹانکے صدا دینے لگے

کس نظر سے آپ نے دیکھا دل مجروح کو
زخم جو کچھ بھر چلے تھے پھر ہوا دینے لگے

سننے والے رو دئیے سن کر مریض غم کا حال
دیکھنے والے ترس کھا کر دعا دینے لگے

جز زمین کوئے جاناں کچھ نہیں پیش نگاہ
جس کا دروازہ نظر آیا صدا دینے لگے

باغباں نے آگ دی جب آشیانے کو مرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقت دفن
زندگی بھر کی محبت کا صلا دینے لگے

آئنہ ہو جائے میرا عشق ان کے حسن کا
کیا مزہ ہو درد اگر خود ہی دوا دینے لگے

سینۂ سوزاں میں ثاقبؔ گھٹ رہا ہے وہ دھواں
اف کروں تو آگ دنیا کی ہوا دینے لگے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse