ہجر کی راتیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر کی راتیں
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

ہجر کی راتیں کالی کالی
اس پر یاد کسی کی جاری
ایسے گہرے سناٹے میں
کس سے کہیں ہم غم کی کہانی
دنیا ساری سوتی ہے
تارے گننا بے چینی میں
آہیں بھرنا بیتابی میں
آہ ہماری سونے والو
اس حالت میں لاچاری میں
رات بسر یوں ہوتی ہے
کشتۂ غم کی اب تربت پر
حسرت روتی ہے حسرت پر
ایک اداسی کا عالم ہے
سونے والے کی قسمت پر
شمع بالیں روتی ہے
جس میں حسرت کی بستی ہے
جس کی بلندی ہر پستی ہے
یعنی جس کو دل کہتے ہیں
جس پر سب دنیا ہنستی ہے
ایک انوکھا موتی ہے
چرخ نے بیدردی بے رحمی
سچ تو یہی ہے اس سے سیکھی
آؤ عالمؔ کچھ تو بتاؤ
سب کچھ ہے پر یاس کسی کی
یاد بھلا کیوں کھوتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse