ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا
by مضطر خیرآبادی

ہجر میں ہو گیا وصال کا کیا
خواب ہی بن گیا خیال کا کیا

خود نمائی پہ خاک ڈالو تم
دیکھنا شکل بے مثال کا کیا

تیری فرقت کے دن خدا کاٹے
ہو رہے گا کبھی وصال کا کیا

دل کے دینے میں عذر کس کو ہے
جان ہی دے رہے ہیں مال کا کیا

حال اس نے ہمارا پوچھا ہے
پوچھنا اب ہمارے حال کا کیا

وصل کی التجا پہ بگڑے کیوں
سن کے چپ ہو رہو سوال کا کیا

دور کی عاشقی گناہ نہیں
دیکھ لیتے ہیں دیکھ بھال کا کیا

زلف کو کیوں جکڑ کے باندھا ہے
اس نے بوسہ لیا تھا گال کا کیا

آج تم کیوں ملول بیٹھے ہو
وصل دن ہے مرے وصال کا کیا

جب کہا تم سے روز ملتا ہوں
ہنس کے کہنے لگے خیال کا کیا

قول کے وقت شرط فرصت کیوں
دخل وعدے میں احتمال کا کیا

رنج دے کر جو خوش ہو اے مضطرؔ
اس کو صدمہ مرے ملال کا کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse