ہجر میں ناشاد دنیا سے دل مضطر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر میں ناشاد دنیا سے دل مضطر گیا
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

ہجر میں ناشاد دنیا سے دل مضطر گیا
آج اپنے ساتھ کا اک مرنے والا مر گیا

سننے والے خوب روئے میرے حال زار پر
یوں ہی اپنی عمر کا پیمانہ آخر بھر گیا

بازوئے قاتل تھکائے سخت جانی نے مری
بارہا اس ہاتھ سے اس ہاتھ میں خنجر گیا

ہم وہی گلشن وہی محفل وہی ساماں وہی
ایک ساقی کیا گیا لطف مے و ساغر گیا

ہو گئی غیروں کو بھی ناکام مرنے کی ہوس
میں کسی پر جان دے کر کام اپنا کر گیا

روح پرور ہے نگاہ ناز قاتل کا اثر
جس کو دیکھا جی اٹھا جس کو نہ دیکھا مر گیا

میں کبھی رویا تو وہ بولے ڈبویا نام عشق
اور اگر آنسو پی لئے تو دل میں دریا بھر گیا

ایسی ہی غفلت رہی گر میرے حال زار پر
ایک دن احباب سن لیں گے نظرؔ بھی مر گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse