ہجر میں غم کش کوئی مجھ سا نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر میں غم کش کوئی مجھ سا نہیں
by بیتاب عظیم آبادی

ہجر میں غم کش کوئی مجھ سا نہیں
آج تک میں نے اسے دیکھا نہیں

کہنے والے نے تو سب کچھ کہہ دیا
سننے والا ایک بھی سمجھا نہیں

ماہ میں کس کو سناؤں حال زار
خواب میں بھی وہ نظر آیا نہیں

جب نظر ہو منزل مقصود پر
روک سکتی راہ کی ایذا نہیں

آرزو ہی اس کی دل میں رہ گئی
ہاتھ دامن تک کبھی پہونچا نہیں

بزم ساقی میں ہوئے وہ سرفراز
جام جن کے ہاتھ میں چھلکا نہیں

وعدۂ فردا کی پھر تفصیل کر
کیا کہا تو نے کوئی سمجھا نہیں

ہے غضب پھر صور نے چونکا دیا
نیند بھر کر میں ابھی سویا نہیں

اپنا سا منہ لے کے شانہ رہ گیا
پیچ گیسو کا کوئی سلجھا نہیں

کسب ہر دم کچھ نہ کچھ کرتی ہے روح
جیسا کل تھا آج میں ویسا نہیں

جو نہیں مست شراب بے خودی
اس نے لطف زندگی پایا نہیں

جیتے جی اپنے کو کر دیتا تھا خاک
موت سے مرنا کوئی مرنا نہیں

یاد اے بیتابؔ رکھنا یار کو
پار ہے بیڑا اگر بھولا نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse