ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے
by مردان علی خاں رانا

ہجر جاناں میں جی سے جانا ہے
بس یہی موت کا بہانہ ہے

کیوں نہ برسائیں اشک دیدۂ تر
آتش عشق کا بجھانا ہے

ہو عدو جس پہ کیجیئے احسان
کچھ عجب طرح کا زمانہ ہے

یاد دلوا کے داستان وصال
عاشق زار کو رلانا ہے

رکھ دلا روز و شب امید وصال
رنج فرقت اگر بھلانا ہے

جان جاتی ہے جس جگہ سب کی
اسی کوچے میں اپنا جانا ہے

کوئی دم میں عدم کو ہوں راہی
آ اگر تجھ کو اب بھی آنا ہے

خاک ساری نہ چھوڑنا رعناؔ
ایک دن خاک ہی میں جانا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse