ہجر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہجر
by عظیم الدین احمد

تو پاس تھا جی کو چین کچھ تھا
تیرا جانا کہ آفت آئی
نظروں سے چھپا جو تیرا چہرا
میرے سر پر قیامت آئی

باقی تھوڑا سا دن تھا لیکن
میری آنکھوں میں تھا اندھیرا
کیونکر ہو صبر مجھ سے ممکن
دل کو ہر دم ہے دھیان تیرا

اے ظلم کے اور ستم کے بانی
اے شوخ جفا شعار عیار
مجھ کو دوبھر ہے زندگانی
میری آنکھوں میں ہے جہاں تار

اے برق مثال اے طرحدار
اے ماہ جبیں غزال سیرت
مجھ پر تار نفس ہے اک بار
مجھ سے کوسوں پرے ہے راحت

گھر بھر سوتا ہے ایک بیتاب
آہیں بھر کر تڑپ رہا ہے
بھولے بھی آنکھ کو نہیں خواب
ظلمت شب کی عجب بلا ہے

ہرگز ہرگز مجھے میسر
آئی کوئی گھڑی نہ راحت
کیسا کیسا رہا ہوں مضطر
کتنی کتنی اٹھائی زحمت

دل کو ہے سخت بے قراری
جینے کے پڑ گئے ہیں لالے
دل کی حالت نہ یہ مٹے گی
جب تک تو ہی نہ پھر سنبھالے

مجھ کو تنہائی گو ستائے
تجھ کو عیش و طرب ہو میموں
مجھ پر آفت ہزار آئے
تجھ سے خوش طالعی ہو مقروں

تجھ سے چھٹنا ہے سخت مشکل
جب تک ہے حافظے میں قدرت
تیرا تیرا رہے گا یہ دل
جب تک نہ ملائے تجھ سے قسمت

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse