ہاں کبھی ہے کبھی ہے یار نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہاں کبھی ہے کبھی ہے یار نہیں  (1933) 
by منشی ٹھاکر پرساد طالب

ہاں کبھی ہے کبھی ہے یار نہیں
ہاں نہیں کا کچھ اعتبار نہیں

سر میں سودا عبث ہے دنیا کا
گھر کچھ ایسا یہ پائیدار نہیں

قاتل ابرو سے تیرے ڈرتے ہیں
ورنہ تیغ ایسی آبدار نہیں

سنگ طفلاں سے اس لئے ڈر ہے
سر شوریدہ پائیدار نہیں

چلے جاتے ہیں رہروان عدم
ساتھ والوں کا اعتبار نہیں

پھر کسی زلف کا ہوا سودا
بے سبب دل کو انتشار نہیں

ہم پئیں خود پلائے گر ساقی
عہد یاں ایسا استوار نہیں

ان کے قول و قرار کے ہاتھوں
کون دل ہے جو بے قرار نہیں

دیکھ کر تجھ کو ہے یہ سناٹا
دل بھی پہلو میں بے قرار نہیں

مشعل داغ ساتھ جائے گی
خوف تاریکیٔ مزار نہیں

دیکھیں کیا ہو میں ہوں برہنہ پا
بے خلش کوئی نوک خار نہیں

کس کے کہنے سے ترک مے طالبؔ
خام ہے شیخ پختہ کار نہیں

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse