ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا
by شاہ نصیر

ہار بنا ان پارۂ دل کا مانگ نہ گجرا پھولوں کا
اور کہاں سے عاشق مفلس لائے یہ گہنہ پھولوں کا

دیکھے ہے وہ صحن چمن میں جا کے تماشا پھولوں کا
داغوں سے بن جائے یہ سینہ کاش کہ تختہ پھولوں کا

کاش دل صد چاک یہ بن کر بیچنے والا پھولوں کا
کوئے بتاں میں جا کے پکارے لو کوئی گجرا پھولوں کا

حرف نہیں ہے دیدۂ تر ٹکڑوں سے جگر کے لائق پر
سیل اشک کو دریا سمجھو اس کو نواڑا پھولوں کا

صبح نہیں بے وجہ جلائے لالے نے گلشن میں چراغ
دیکھ رخ گلنار صنم نکلا ہے وہ لالہ پھولوں کا

مجھ کو نہ لے چل باد بہاری رنگ چمن ہے وحشت خیز
جیب سے لے کر دامن تک سو ٹکڑے کرتا پھولوں کا

تو نے لٹایا انگاروں پر صبح تلک اے وعدہ خلاف
تیری خاطر ہم نے کیا تھا شب کو بچھونا پھولوں کا

سلک سرشک سرخ زمیں تک تجھ کو دکھاوے مژگاں سے
پھلجھڑی ایسی چھوڑ کوئی ہوں میں بھی لچھا پھولوں کا

کان سے تیرے جھک جھک کر یہ لیتا ہے بوسے عارض کے
یا تو ہمارے ٹکڑے کر یا توڑ یہ بالا پھولوں کا

دھوپ میں اس کا ہائے قفس صیاد ستم ایجاد رکھے
رہتا تھا جس مرغ چمن کے سر پر سایا پھولوں کا

جھل کھائے اغیار نہ کیوں کر کل چلون سے ہات نکال
مارا تھا اس پردہ نشیں نے مجھ کو پنکھا پھولوں کا

عشق میں تیرے گل کھا کر جاں اپنی دی ہے نصیرؔ نے آہ
اس کے سر مرقد پر گل رو لا کوئی دونا پھولوں کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse