ہاتھ میں لے کے نہ خنجر بیٹھیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہاتھ میں لے کے نہ خنجر بیٹھیے
by قربان علی سالک بیگ

ہاتھ میں لے کے نہ خنجر بیٹھیے
قتل کرنا ہے تو بس کر بیٹھیے

بار در تک بھی نہیں اور شوق یہ
بزم میں ان کے برابر بیٹھیے

اٹھیے اے شور فغاں پر اس طرح
نقش کی مانند دل پر بیٹھیے

ہو چکی تعظیم دشمن کی کہیں
اے زیارت گاہ محشر بیٹھیے

ضعف طاری ہو تو کیوں کر لوٹیے
جان مضطر ہو تو کیوں کر بیٹھیے

یہ کوئی دفتر نہیں سن لیجئے
حال دل کہتا ہوں دم بھر بیٹھیے

حضرت دل کوچۂ قاتل کا عزم
روئیے گا سر پکڑ کر بیٹھیے

روئے جنگل میں بہت اب جی میں ہے
گھر بٹھانے کے لئے گھر بیٹھیے

کھینچ مارا ایک پتھر بات میں
اس صنم کے پاس پتھر بیٹھیے

خاک چھانی عشق میں سالکؔ بہت
پیر و مرشد کوئی دن گھر بیٹھیے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse