ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
by محمد ابراہیم ذوق

ہاتھ سینہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو
اک نظر دل سے ادھر دیکھ لو گر دیکھتے ہو

ہے دم باز پسیں دیکھ لو گر دیکھتے ہو
آئینہ منہ پہ مرے رکھ کے کدھر دیکھتے ہو

ناتوانی کا مری مجھ سے نہ پوچھو احوال
ہو مجھے دیکھتے یا اپنی کمر دیکھتے ہو

پر پروانہ پڑے ہیں شجر شمع کے گرد
برگ ریزی محبت کا ثمر دیکھتے ہو

بید مجنوں کو ہو جب دیکھتے اے اہل نظر
کسی مجنوں کو بھی آشفتہ بسر دیکھتے ہو

شوق دیدار مری نعش پہ آ کر بولا
کس کی ہو دیکھتے راہ اور کدھر دیکھتے ہو

لذت ناوک غم ذوقؔ سے ہو پوچھتے کیا
لب پڑے چاٹتے ہیں زخم جگر دیکھتے ہو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse