ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

ہاتھ رکھتے ہی تھا حال قلب مضطر آئینہ
دست نازک ہے حسینوں کا مقرر آئینہ

بن گیا غماز شکل ان کی دکھا کر آئینہ
جو ہمارا راز دل تھا اب ہے ان پر آئینہ

توڑ کر دل تم نے کھویا امتیاز حسن بھی
اک تمہارے پاس تھا یا اب ہے گھر گھر آئینہ

دیکھنا ہے کس میں اچھی شکل آتی ہے نظر
اس نے رکھا ہے مرے دل کے برابر آئینہ

آئنہ رکھو لو کہ دونا لطف آئے وقت رنج
اس طرف تم اس طرف کھینچے ہو خنجر آئینہ

عکس سے اپنے کسی کے گرم جوشی قہر تھی
رہ گیا آخر پسینے میں نہا کر آئینہ

شوق خود بینی ستم نیندیں جوانی کی غضب
بے خبر سوتے ہیں وہ رکھا ہے منہ پر آئینہ

شوخیوں سے بن گیا بجلی کسی کا عکس بھی
اب تو ہاتھوں سے نکلتا ہے تڑپ کر آئینہ

یوں کہاں ممکن تھا حسن خاص کا دیدار عام
بن گئی آخر سراپا صبح محشر آئینہ

دیکھ لیں شاید نظرؔ وہ دیدۂ انصاف سے
لے چلو ٹوٹے ہوئے دل کا بنا کر آئینہ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse