ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا
by نسیم دہلوی

ہاتھوں میں آج کی شب مہندی لگایئے گا
سمجھے یہ رنگ ہم بھی کچھ رنگ لائیے گا

یہ شوخیاں تمہاری لکھی ہوئی ہیں دل پر
آخر کبھی تو میرے قابو میں آئیے گا

پھر میں بھی کچھ کہوں گا دیکھو زبان روکو
پھر منہ چھپا کے مجھ سے آنسو بہائیے گا

ذات شریف ہو تم میں خوب جانتا ہوں
طوفان اور کوئی مجھ پر اٹھائیے گا

ہاں شمع کا میں گل ہوں ناصح کی گفتگو ہوں
بڑھ جاؤں گا جہاں تک مجھ کو گھٹائیے گا

امیدوار باقی کچھ اور رہ گئے ہیں
پھر بھی نقاب گیسو منہ سے ہٹائیے گا

بے وجہ یہ نہیں ہے انداز گفتگو کا
پھر کل کی طرح اے جاں باتیں سنائیے گا

میں ہوں مزاج قاتل لازم ہے خوف مجھ سے
جھوٹی قسم نہیں ہوں ہر دم جو کھائیے گا

یہ کیوں ہے ناامیدی درگاہ کبریا سے
جو کچھ کہ آرزو ہے ویسا ہی پائیے گا

مشتاق نے تو جاں دی گلگو لباس کیوں ہو
یہ رنگ نو عروسی کس کو دکھائیے گا

دیکھو رقیب آئے دیکھو رقیب آئے
کیا منہ اب آپ کا ہے جو منہ چھپائیے گا

ہم خوب جانتے ہیں استادیاں تمہاری
محفل میں بیٹھے بیٹھے آنکھیں ملایئے گا

آخر کچھ انتہا بھی بے رحمیوں کی صاحب
کہیے تو عاشقوں کو کب تک ستائیے گا

ممکن نہیں جو نیت بدلے تمہاری اے جاں
کیا قہر آج کی شب ہم پر نہ لائیے گا

کچھ لحظہ اور ٹھہرو تا روح تن سے نکلے
آئے گی اور آفت گر آپ جائیے گا

سمجھے ہوئے ہیں جو کچھ دل میں بھرے ہوئے ہے
کاہے کو آئیے گا کاہے کو آئیے گا

آؤ تو جلد آؤ دم بھر کے بعد اے جاں
مجھ کو نہ پائیے گا مجھ کو نہ پائیے گا

سن لیجئے گا جو کچھ مدت سے آرزو ہے
فرصت ہو گر میسر دم بھر کو آئیے گا

کچھ دور میں نہیں ہوں لازم ہے یاد کرنی
مانند دل مجھے بھی پہلو میں پائیے گا

ٹھنڈی کبھی نہ ہوں گی کیا گرمیاں تمہاری
آخر نسیمؔ کا دل کب تک جلائیے گا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.