ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ
by بخش ناسخ

ہائے لایا نہ کوئی قاصد دلبر کاغذ
ہو گیا غم سے ہمارا تن لاغر کاغذ

نامۂ یار کے لکھنے کو مجھے ارزاں ہے
تول دے گر کوئی سونے کے برابر کاغذ

یوں لفافے میں ہمارا ہے کلام شیریں
جس طرح باندھتے ہیں قند کے اوپر کاغذ

ناتوانی سے نہیں ہے مجھے ممکن حرکت
میں ہوں حرفوں کی طرح میرا ہے بستر کاغذ

حال لکھا ہے جو میں نے بدن لاغر کا
لے اڑا تنکے کی مانند کبوتر کاغذ

میں نے لکھا ہے جو اپنا یہ مصیبت نامہ
مہر کرنے کو کروں اشک سے اب تر کاغذ

میرے نامے کو اگر دست حنائی میں وہ لے
ورق گل سے بھی ہو رنگ میں بہتر کاغذ

حال سوز غم فرقت کروں تحریر تو ہو
کبک کی چونچ قلم بال سمندر کاغذ

اس قدر مثل قلم میں نے جبیں سائی کی
بن گیا گھس کے در یار کا پتھر کاغذ

یار نے خط میں جو لکھا ہے کہ نہ آنا ہرگز
ہو گیا میرے لیے سد سکندر کاغذ

ساتھ نامے کے گئی جان بھی سوئے جاناں
ہو گیا طائر جاں کے لیے شہ پر کاغذ

نہیں تحفہ خط جاناں کے برابر کوئی
ہے مجھے قند و ذقن سے کہیں بہتر کاغذ

جائے جراح کہ اب نامہ بر آ پہنچا ہے
بدلے پھاہے کے رکھوں داغ جگر پر کاغذ

کیا میں افلاس میں خط یار کو لکھوں ناسخؔ
نہ قلم ہے نہ سیاہی نہ میسر کاغذ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse