Jump to content

ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا (II)

From Wikisource
ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا (II)
by جلیل مانکپوری
298357ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا (II)جلیل مانکپوری

ہائے دم بھر بھی دل ٹھہر نہ سکا
ہاتھ سینے پہ کوئی دھر نہ سکا

آئینہ کس سے دیکھا جاتا ہے
رشک کے مارے وہ سنور نہ سکا

رہ گیا آنکھ میں نزاکت سے
دل میں نقشہ ترا اتر نہ سکا

اس جہاں سے گزر گئے لاکھوں
اس گلی سے کوئی گزر نہ سکا

مے کشی سے نجات مشکل ہے
مے کا ڈوبا کبھی ابھر نہ سکا

میرا نامہ خط مقدر تھا
کہ نظر سے تری گزر نہ سکا

جو ترے عشق میں تباہ ہوا
کوئی اس کو تباہ کر نہ سکا

آگ ایسی لگی تھی سینے میں
آنکھ سے دل میں وہ اتر نہ سکا

موسم گل میں بھی جلیلؔ افسوس
دامن اپنا گلوں سے بھر نہ سکا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.