ہائے اس بے خود شباب کا رنگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ہائے اس بے خود شباب کا رنگ
by صفی اورنگ آبادی

ہائے اس بے خود شباب کا رنگ
لال انگارہ سا شراب کا رنگ

ہو گیا خون حسرت دیدار
دے دیا اشک نے شہاب کا رنگ

اس کی خوش بو گلاب کی خوش بو
رنگ اس شوخ کا گلاب کا رنگ

ستیاناس ہو گیا دل کا
کیا کہوں اس جلے کباب کا رنگ

بجلیاں دشمنوں پہ گرتی ہیں
دیکھ کر میرے اضطراب کا رنگ

وہ سر شام سیر کو نکلے
پڑ گیا زرد آفتاب کا رنگ

اس کے رخ پر نکھر گئی سرخی
اللہ اللہ اس حجاب کا رنگ

ماند ہے رات دن ترے آگے
ماہتاب اور آفتاب کا رنگ

اتنی شوخی صفیؔ کسی میں کہاں
رنگ میں رنگ تو شراب کا رنگ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse