گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار
by میر محمدی بیدار

گیا ہے جب سے دکھا جلوہ وہ پری رخسار
نہ خواب دیدۂ گریاں میں ہے نہ دل کو قرار

ہزار رنگ سے پھولے چمن میں گو گل زار
پر اس بغیر خوش آتی نہیں مجھے یہ بہار

برنگ لالۂ سر مے کشی نہیں تجھ بن
کہ خون دل سے میں ہر روز توڑتا ہوں خمار

گلوں کے منہ پہ نہ یہ رنگ آب و تاب رہے
وہ رشک باغ کرے گر ادھر کو آ کے گزار

عجب نہیں کہ بہا دیوے خانۂ مردم
رہے گر اشک فشاں یوں ہی دیدۂ خوں بار

رہائی کیونکہ ہو یارب میں اس میں حیراں ہوں
کہ ایک دل ہے مرا تس پہ درد و غم ہے ہزار

کہا میں اس بت ابرو کماں کی خدمت میں
خدنگ جبر نے تیرے کیا ہے مجھ کو نگار

نہ رحم تیرے دل سخت میں ہے غیر از ظلم
نہ میرے نالۂ جاں سوز میں اثر اے یار

نہ تاب ہجر کی رکھتا ہوں نے امید وصال
خدا ہی جانے کہ کیا ہوگا اس کا آخر کار

ہر ایک دن مجھے یوں سوجھتا ہے جی تن سے
نکل ہی جائے گا ہم راہ آہ آتش بار

نہ تو مزار پہ آوے گا تا دم محشر
رہے گی دیدۂ گریاں کو حسرت دیدار

عبث تو مجھ کو ڈراتا ہے اپنے مرنے سے
ہزار تجھ سے مرے مر گئے ہیں عاشق زار

یہ سن کے کہنے لگا وہ ستم گر بے رحم
مری بلا سے جو مر جائے گا تو اے بیدارؔ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse