گیا شباب نہ پیغام وصل یار آیا
Appearance
گیا شباب نہ پیغام وصل یار آیا
جلا دو کاٹ کے اس نخل میں نہ بار آیا
قدم عدم میں یہ کہہ کر رکھوں گا اے قاتل
ہزار شکر کہ میں بار سر اتار آیا
مثال مہر وہ قاتل شعاع عارض سے
ہزار تیغ قضا کھینچے ایک بار آیا
اذاں دی کعبہ میں ناقوس دیر میں پھونکا
کہاں کہاں تجھے عاشق ترا پکار آیا
تری تلاش میں اے ماہ مثل ریگ رواں
نہ میری خاک کو بعد از فنا قرار آیا
پھنسا جو زلف میں چھوٹا وہ قید ہستی سے
رہا ہوا جو ترے دام میں شکار آیا
ہمیشہ دیکھ کے مجنوں کو خلق کہتی تھی
عدم سے برقؔ کی آمد ہے پیشکار آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |