گیا جوانی کا ساتھ سب کچھ وہ گرمئ عشق اب کہاں ہے
گیا جوانی کا ساتھ سب کچھ وہ گرمئ عشق اب کہاں ہے
جو میں نے اس وقت آہ کی ہے بجھی ہوئی آگ کا دھواں ہے
لگے بجھاتا نہیں وہ دشمن جلن یہ ہے پھینک رہا ہے تن من
چراغ سا داغ دل ہے روشن دیا سلائی ہے استخواں ہے
طبیعت اپنی ہے کیوں مکدر نہیں سمجھتا نہ سمجھے دل بر
کرے گا دشمن بھی رحم ہم پر اگر خدا اپنا مہرباں ہے
کھلے ہیں داغوں کے پھول تن پر بہار تازہ ہے اے گل تر
کبھی تو میری طرف نظر کر چمن میں کیا شاخ زعفران ہے
کبھی ہے مانند موج دریا کبھی ہے مثل غبار صحرا
کہوں میں کیا حال اپنے دل کا بچھڑ کے مجھ سے رواں دواں ہے
تلف ہوئے جس میں زندگانی بسر ہوئے جس میں نوجوانی
وہ میری بیتی ہوئی کہانی سنو اگر شوق داستاں ہے
یہی ہیں معنی عشق کامل کہ سو بلاؤں سے ہوں مقابل
بلند ہے اب جو نالۂ دل سپاہ اندوہ کا نشاں ہے
خدا نہ دکھلائے اچھی صورت ابھی تو آ جاتی ہے حرارت
پڑے گی بے شک نگاہ الفت ضعیف گو میں ہوں دل جواں ہے
ہزار افسوس عمر کھوئی نہ دیکھا دین دار ہم نے کوئی
ہے واعظوں میں فسانہ گوئی مدرسوں میں چنیں چناں ہے
برائے زر متقی بنے ہیں حصول کے مسئلے چھنے ہیں
مرید جو ہیں وہ بت بنے ہیں متاع اسلام رائیگاں ہے
کوئی تو سوداؔ کا ہے موصف کوئی تقیؔ میر کا معرف
بتاؤ اے دوستان منصف کئی ہمارا بھی قدرداں ہے
سنے ہے میں نے فغان بلبل بہار میں ہے مجھے تامل
چٹک رہا ہے جو غنچۂ گل صدائے نقارۂ خزاں ہے
کیا ہے کیوں بحرؔ سے کنارا تری جدائی نے مجھ کو مارا
ارے بت سنگ دل خدا را بلا لے مجھ کو بھی تو جہاں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |