گیا جوانی کا ساتھ سب کچھ وہ گرمئ عشق اب کہاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گیا جوانی کا ساتھ سب کچھ وہ گرمئ عشق اب کہاں ہے
by امداد علی بحر

گیا جوانی کا ساتھ سب کچھ وہ گرمئ عشق اب کہاں ہے
جو میں نے اس وقت آہ کی ہے بجھی ہوئی آگ کا دھواں ہے

لگے بجھاتا نہیں وہ دشمن جلن یہ ہے پھینک رہا ہے تن من
چراغ سا داغ دل ہے روشن دیا سلائی ہے استخواں ہے

طبیعت اپنی ہے کیوں مکدر نہیں سمجھتا نہ سمجھے دل بر
کرے گا دشمن بھی رحم ہم پر اگر خدا اپنا مہرباں ہے

کھلے ہیں داغوں کے پھول تن پر بہار تازہ ہے اے گل تر
کبھی تو میری طرف نظر کر چمن میں کیا شاخ زعفران ہے

کبھی ہے مانند موج دریا کبھی ہے مثل غبار صحرا
کہوں میں کیا حال اپنے دل کا بچھڑ کے مجھ سے رواں دواں ہے

تلف ہوئے جس میں زندگانی بسر ہوئے جس میں نوجوانی
وہ میری بیتی ہوئی کہانی سنو اگر شوق داستاں ہے

یہی ہیں معنی عشق کامل کہ سو بلاؤں سے ہوں مقابل
بلند ہے اب جو نالۂ دل سپاہ اندوہ کا نشاں ہے

خدا نہ دکھلائے اچھی صورت ابھی تو آ جاتی ہے حرارت
پڑے گی بے شک نگاہ الفت ضعیف گو میں ہوں دل جواں ہے

ہزار افسوس عمر کھوئی نہ دیکھا دین دار ہم نے کوئی
ہے واعظوں میں فسانہ گوئی مدرسوں میں چنیں چناں ہے

برائے زر متقی بنے ہیں حصول کے مسئلے چھنے ہیں
مرید جو ہیں وہ بت بنے ہیں متاع اسلام رائیگاں ہے

کوئی تو سوداؔ کا ہے موصف کوئی تقیؔ میر کا معرف
بتاؤ اے دوستان منصف کئی ہمارا بھی قدرداں ہے

سنے ہے میں نے فغان بلبل بہار میں ہے مجھے تامل
چٹک رہا ہے جو غنچۂ گل صدائے نقارۂ خزاں ہے

کیا ہے کیوں بحرؔ سے کنارا تری جدائی نے مجھ کو مارا
ارے بت سنگ دل خدا را بلا لے مجھ کو بھی تو جہاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse