گہ پیر شیخ گاہ مرید مغاں رہے
Appearance
گہ پیر شیخ گاہ مرید مغاں رہے
اب تک تو آبرو سے نبھی ہے جہاں رہے
دنیا میں ہم رہے تو کئی دن پہ اس طرح
دشمن کے گھر میں جیسے کوئی میہماں رہے
اے دیدہ دل کو روتے ہو کیا تم ہمیں تو یاں
یہ جھینکنا پڑا ہے کسی طرح جاں رہے
قسمت تو دیکھ بار بھی اپنا گرا تو واں
جس دشت پر خطر میں کئی کارواں رہے
صحبت کی گرمی ہم سے کوئی سیکھے مثل شمع
سارے ہوئے سفید پہ تد بھی جواں رہے
مسجد سے گر تو شیخ نکالا ہمیں تو کیا
قائمؔ وہ مے فروش کی اپنے دکاں رہے
قائمؔ اسی زمیں کو تو پھر کہہ پر اس طرح
سن کر جسے کہ چرخ میں نت آسماں رہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |