گھڑی گھڑی ہے ہمیں اپنے مہرباں کا خیال

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گھڑی گھڑی ہے ہمیں اپنے مہرباں کا خیال  (1895) 
by رنج حیدرآبادی

گھڑی گھڑی ہے ہمیں اپنے مہرباں کا خیال
نہ کچھ زمیں کی خبر ہے نہ آسماں کا خیال

یہ بے خودی ہے کہ جس دن سے دل لگا بیٹھے
کہاں کا ہوش کہاں کی خبر کہاں کا خیال

اڑے ہوئے ہیں رقیبوں کے ہوش پہ اب تک
جو دل میں آپ کے آیا تھا امتحاں کا خیال

عدو سے ہنستے رہے رات بھر سر محفل
کیا نہ تم نے مرے چشم خوں فشا کا خیال

کسی کو دو نہ سر بزم بے دھڑک گالی
خدا کے واسطے رکھو ذرا زباں کا خیال

قدم جو بھول کے رکھیں رہ محبت میں
تو خضر کو بھی نہ ہو عمر جاوداں کا خیال

لگا نہ خلد میں بھی دل میں کیا بیاں کروں
وہاں بھی مجھ سے نہ چھوٹا ترے مکاں کا خیال

میں اس طرف کبھی رخ بھول کر نہیں کرتا
میں کیا بتاؤں جب آتا ہے پاسباں کا خیال

خدا کے واسطے مانو مرا کہا اے رنجؔ
خدا کے واسطے چھوڑو یہ ہے کہاں کا خیال

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse