گھڑی بھر آج وہ مجھ سے رہا خوش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گھڑی بھر آج وہ مجھ سے رہا خوش
by صفی اورنگ آبادی

گھڑی بھر آج وہ مجھ سے رہا خوش
خدا رکھے اسے اس سے سوا خوش

یہ میں جو ہر طرح ناشاد و ناخوش
پھر ایسے سے رہے ان کی بلا خوش

کبھی خوش ہے کبھی وہ مجھ سے نا خوش
ہمیشہ کون دنیا میں رہا خوش

تمہیں تم خوش تو پھر کے لطف صحبت
مزہ ملنے کا ہے ہو دوسرا خوش

تمہیں تم خوش تو پھر کیا لطف صحبت
مزہ ملنے کا ہے ہو دوسرا خوش

خوشی کی مل گئیں دو چار سانسیں
کہ وہ بد عہد آیا خوش گیا خوش

جو وہ باتوں سے خوش کرنے پہ آتے
تو ہوتے بندۂ درگاہ کیا خوش

سمجھتے ہیں کہ یہ گستاخ بھی ہے
ذرا نا خوش ہیں وہ مجھ سے ذرا خوش

کہاں تک ضبط اب کرتا ہوں نالہ
ستم گر خوش رہے مجھ سے کہ نا خوش

در دولت پہ تھے لاکھوں بھکاری
نہ پلٹا کوئی محروم اور نا خوش

الٰہی بخت تو بیدار بادہ
عدو نا خوش رہیں اور آشنا خوش

سنی ہے بارہا میری تمنا
کیا ہے اس نے مجھ کو بارہا خوش

خوشی سے آج اس نے بات کر لی
طبیعت ہو گئی بے انتہا خوش

کرو وہ کام جو کل کام آئے
چلو وہ چال جس سے ہو خدا خوش

الٰہی دور عثمانی ہو دائم
کہ ہے اس عہد میں چھوٹا بڑا خوش

خوشی میری کسی کے ہاتھ میں ہے
ہوا خوش جو کسی نے کر دیا خوش

صفیؔ میری خوشی و ناخوشی کیا
رکھا جس حال میں اس نے رہا خوش

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse