گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو  (1911) 
by وفا لکھنوی

گھٹا ہو باغ ہو پہلو میں اپنے یار جانی ہو
جو یہ ساماں میسر ہو تو لطف زندگانی ہو

مزہ کیا خضر کی صورت جو عمر جاودانی ہو
ہم اس جینے سے باز آئے جو تنہا زندگانی ہو

گھٹا ہے ساقیا سامان وصل یار جانی ہو
لبالب ہر صراحی میں شراب ارغوانی ہو

خزاں میں کہتے ہیں پیر مغاں سے رند مشرب یوں
بہار آئی کہیں دور شراب ارغوانی ہو

کسی یوسف لقا پر دل جو آئے عہد پیری میں
نئے سر سے زلیخا کی صفت پھر نوجوانی ہو

مجھے شوق شہادت تشنہ لب لایا ہے مقتل میں
پلا دے آب خنجر پیاس اگر قاتل بجھانی ہو

وہ مجرم ہوں کہوں گا حشر میں اللہ سے رو کر
جہنم سے میں بچ جاؤں جو تیری مہربانی ہو

محبت ان بتان سنگ دل سے دیکھ کر کرنا
شب فرقت کی ایذا گر تجھے اے دل اٹھانی ہو

تری تصویر اے جاں کھینچ لے کیا تاب رکھتا ہے
نظر بھر کر اگر دیکھے تجھے بے ہوش مانی ہو

پئے جاتا ہوں خم کے خم وہ مے خانے میں مے کش ہوں
پلائے جا مجھے ساقی جہاں تک مے پلانی ہو

حباب بحر کی صورت نہیں دم بھر ثبات اس کو
مری نظروں میں پھر دنیائے دوں کیونکر نہ فانی ہو

کھڑا ہوں طور پر کب سے مجھے دیدار دکھلا دو
کلیم اللہ جب آئیں تو ان سے لن ترانی ہو

وفاؔ بہر خدا چھوڑو محبت ان حسینوں کی
بتوں کے ہجر میں ایسا نہ ہو ضائع جوانی ہو

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse