گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

گھر کے گھبراتے نہ تھے ہجر کے آزاروں میں
جب کہ طاقت تھی کبھی آپ کے بیماروں میں

لے کے ہم دل گئے کہتے یہ جفا کاروں میں
کون لیتا ہے اسے اتنے خریداروں میں

دی رہائی مجھے صیاد نے اے وائے نصیب
دخل جب فصل خزاں کا ہوا گلزاروں میں

میرے مرنے کا ہوا رنج ہر اک قیدی کو
کہ ہے کہرام بپا تیرے گرفتاروں میں

دست نازک سے مجھے جام دیا ساقی نے
آبرو بڑھ گئی اور آج سے مے خواروں میں

آتش ہجر سے کیا ڈر جو تری مرضی سے
رات کر دیں گے بسر لوٹ کے انگاروں میں

پھینک دینا نہ کہیں بھول کے ہنگام سحر
دل بھی لپٹا ہے انہیں سوکھے ہوئے ہاروں میں

نالۂ بلبل شیدا نہ جسے پھاند سکے
یہ بلندی تو نہیں باغ کی دیواروں میں

نکلا وہ تیر نگہ بھی تو یہ کہہ کر نکلا
میرا دامن نہ الجھ جائے کہیں خاروں میں

یوں سنائی گئی ہے اس کو خبر عالمؔ کی
مر گیا کوئی ترے تازہ گرفتاروں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse