گو شمع ہوں پہ محفل جاناں سے دور ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گو شمع ہوں پہ محفل جاناں سے دور ہوں
by جمیلہ خدا بخش

گو شمع ہوں پہ محفل جاناں سے دور ہوں
میں عندلیب ہوں پہ گلستاں سے دور ہوں

برگ خزاں رسیدہ بنایا ہے عشق نے
میں موسم بہار میں بستاں سے دور ہوں

اے یار جستجو میں تری صورت غبار
سرگشتہ ہوں پہ گردش دوراں سے دور ہوں

پروانہ وار گو کہ جلایا ہے عشق نے
لیکن چراغ گور غریباں سے دور ہوں

گھلتا ہے دل کہ رہرو الفت کے واسطے
میں خضر ہوں پہ چشمۂ حیواں سے دور ہوں

کہتا ہے یہ پکار کے خون شہید ناز
قاتل میں تیرے گوشۂ داماں سے دور ہوں

بندہ ہوں عشق کا مرا مذہب نہ پوچھئے
آزاد ہو کے گبرو مسلماں سے دور ہوں

موج نسیم صبح ستاتی ہے کیا مجھے
میں بوئے گل کی طرح گلستاں سے دور ہوں

کہتا ہے اس کی زلف میں پھنس کر یہ مرغ دل
قیدی تو ہوں جمیلہؔ پہ زنداں سے دور ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse