گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے
by شاہ نصیر

گو سیہ بخت ہوں پر یار لبھا لیتا ہے
شکل سایہ کے مجھے ساتھ لگا لیتا ہے

گو ملاقات نہیں عالم بیداری میں
خواب میں پر وہ ہمیں ساتھ سلا لیتا ہے

اشک کو ٹک بن مژگاں میں ٹھہرنے دے دلا
یہ ترا دیکھ تو ہاں دیکھ تو کیا لیتا ہے

راہیٔ ملک عدم سے نہ کر اتنی کاوش
دم مسافر یہ تہ نخل ذرا لیتا ہے

شیشۂ دل میں مرے تیرے خیال خط سے
آ گیا بال ہے تو مول اسے کیا لیتا ہے

یہ مثل اے بت مے نوش سنی ہے کہ نہیں
لے ہے برتن جو کوئی اس کو بجا لیتا ہے

تو وہ ہے نام خدا اے بت کافر کہ ترے
زاہد گوشہ نشیں بھی قدم آ لیتا ہے

دل پہ تلوار سی کچھ لگتی ہے جب غیر کو تو
پاس ابرو کے اشارے سے بلا لیتا ہے

کیوں نہ پھولے دل صد چاک ہمارا یارو
گل سمجھ کر وہ اسے سر پہ چڑھا لیتا ہے

موج دریا تو کب اٹکھیلی سے یوں چلتی ہے
پر تری کبک دری چال اڑا لیتا ہے

زلف مشکیں کو نہ چھیڑ اس کی دلا مان کہا
اپنے کیوں سر پہ بلا اہل خطا لیتا ہے

ہوک سی اٹھتی ہے کچھ دل میں مرے آہ نصیرؔ
جب وہ پہلو میں رقیبوں کو بٹھا لیتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse