گویا زبان حال تھی ساحرؔ خموش تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گویا زبان حال تھی ساحرؔ خموش تھا
by ساحر دہلوی

گویا زبان حال تھی ساحرؔ خموش تھا
یہ سعئ ضبط تھی وہ تقاضائے جوش جوش تھا

پردے میں لن ترانی تھی رگ رگ میں جوش تھا
چمکی جو برق حسن نہ میں تھا نہ ہوش تھا

میخانۂ‌ خیال میں مستی کا جوش تھا
گل تھا چراغ عقل میں گم کردہ ہوش تھا

وصوت تھا میرا نظارہ و کلام
راز و نیاز بے اثر چشم و گوش تھا

کیفیتیں ہیں کچھ مجھے جوش جنوں کی یاد
بیٹھا جو کوئی نیش رگ جاں میں نوش تھا

تیرے قتیل غمزہ کو تن تھا وبال جاں
تیرے شہید ناز کو سربار دوش تھا

دل کان‌ معرفت کا تھا اک جوہر‌ لطیف
گو عنصری وجود میں یہ خاک پوش تھا

کیا مستیاں تھیں شب نگہ‌ مست ناز سے
ساقی بہ غمزہ بغچہ‌ مے فروش تھا

مینا نے گوش‌‌ ام میں جھک کر کہا یہ راز
حق حق‌ نوید وصل‌ و پیام سروش تھا

کیا کیا تھیں حسن و عشق میں باہم اشارتیں
تھا کوئی سخت گیر کوئی سخت کوش تھا

صرف نظارہ چشم تھی وقف کلام‌ گوش
دل جلوہ‌ مست اور لب ساحرؔ خموش تھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse