گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
by مرزا غالب
297800گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہمرزا غالب

گنی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
ابھی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرہ
گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بروز شمار
ہوا کرے گی ہر اک سال آشکار گرہ
یقین جان برس گانٹھ کا جو تاگا ہے
یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گرہ
گرہ سے اور گرہ کی امید کیوں نہ بڑھے
کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ
دکھا کے رشتہ کسی جوتشی سے پوچھا تھا
کہ دیکھ کتنی اٹھا لاے گا یہ تار گرہ
کہا کہ چرخ پہ ہم نے گنی ہیں نو گرہیں
جو یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرہ
خود آسماں ہے مہا راؤ راجہ پر صدقے
کرے گا سینکڑوں اس تار پر نثار گرہ
وہ راؤ راجہ بہادر کہ حکم سے جن کے
رواں ہو تار پہ فی الفور دانہ وار گرہ
انھیں کی سال گرہ کے لیے سال بسال
کہ لائے غیب سے غنچوں کی نو بہار گرہ
انھیں کی سالگرہ کے لیے بناتا ہے
ہوا میں بوند کو ابر تگرگ بار گرہ
انھیں کی سالگرہ کی یہ شادمانی ہے
کہ ہو گئے ہیں گہر ہاے شاہوار گرہ
انھیں کی سالگرہ کے لیے ہے یہ توقیر
کہ بن گئے ہیں ثمر ہاے شاخسار گرہ
سن اے ندیم برس گانٹھ کے یہ تاگے نے
پئے دعاے بقاے جناب فیض مآب
لگے گی اس میں ثوابت کی استوار گرہ
ہزار دانے کی تسبیح چاہتا ہے بنے
بلا مبالغہ درکار ہے ہزار گرہ
عطا کیا ہے خدا نے وہ جاذبہ اس کو
کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گرہ
کشادہ رخ نہ پھرے کیوں کہ اس زمانے میں
بچی نہ از پئے بند نقاب یار گرہ
متاع عیش کا ہے قافلہ چلا آتا
کہ جادہ رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گرہ
خدا نے دی ہے وہ غالبؔ کو دستگاہ سخن
کڑوڑوں ڈھونڈھ کے لاتا یہ خاکسار گرہ
کہاں مجال سخن سانس لے نہیں سکتا
پڑی ہے غم کی مرے دل میں پیچ دار گرہ
گرہ کا نام لیا پر نہ کر سکا کچھ بات
زباں تک آ کے ہوئی اور استوار گرہ
کھلے یہ گانٹھ تو البتہ دم نکل جاوے
بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گرہ
ادھر نہ ہوگی توجہ حضور کی جب تک
کبھی کسی سے کھلے گی نہ زینہار گرہ
دعا یہ ہے کہ مخالف کے دل میں از رہ بغض
پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گرہ
دل اس کا پھوڑ کے نکلے بہ شکل پھوڑے کے
خدا کرے کہ کرے اس طرح ابھار گرہ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse